اسلام آباد (نیوز ڈیسک )آج جب دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ،مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہزاروں مائیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جبری طورپر لاپتہ ہونے والے اور مختلف جیلوں میں نظر بند اپنے بیٹوں کی واپسی کی منتظر ہیں۔ .
ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے جس کے نتیجے میں 1989 سے اب تک خواتین اور بچوں سمیت 96ہزار192 کشمیریوں کو شہیدکیا گیا جبکہ 22,960 خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ بھارتی فورسز نے اس عرصے کے دوران 11,257 خواتین کی بے حرمتی کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر نظر بند حریت رہنماؤں، کارکنوں، علمائے کرام، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور نوجوانوں کی ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں نے بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں نظر بند اپنے رشتہ داروں کی صحت کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 63 سالہ مزاحمتی رہنما آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، شازیہ اختر اور انشاء طارق سمیت دو درجن سے زائد خواتین کو جھوٹے الزامات کے تحت بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سمیت مختلف جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظر بند کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا کہ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران تقریباً 8000 کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا اور ان لاپتہ افراد کی مائیں ان کی واپسی کی منتظر ہیں۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ کشمیری مائیں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا خمیازہ بھگت رہی ہیں کیونکہ اپنے قریبی عزیزوں کو بھارتی گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھ کر ماؤں سمیت کشمیری خواتین نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں کشمیری مائیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں نظربندیا جبری گمشدگیوں کا شکار اپنے بیٹوں کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں جبکہ کئی کشمیری مائیں اپنے بیٹوں کی تلاش میں اپنی جانیں گنوا چکی ہیں۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ کشمیری ماؤں کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اپنے بیٹوں کی موت کا سوگ منانے اور انہیں اپنی پسند کی جگہوں پر دفنانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ حسینہ بیگم نامی خاتون اپنے بیٹے کو تلاش کرتے کرتے دم توڑ گئی جن کا بیٹا سید انور شاہ جو پیشے سے ایک پینٹر تھا، 21 جولائی 2000 کو سرینگر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد لاپتہ ہو گیاتھا۔کشمیر کے دور افتادہ گاؤں کرہامہ سے تعلق رکھنے والی مہتابہ بیگم اپنے بیٹے کی تلاش میں جان کی بازی ہارگئی جسے 1990 میں کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کا بیٹا محمد یعقوب خان ایک مزدور تھا۔بمنہ کی بوٹ مین کالونی کی مسرہ بیگم اپنے اکلوتے بیٹے شبیر حسین گاسی کو تلاش کرتے کرتے انتقال کرگئیں جنہیں بھارتی فوج نے 21 جنوری 2000 کو گرفتار کیا تھا۔ حمیدہ پروین 2012 میں اس امید کے ساتھ کہ اس کا بیٹا ایک دن گھرواپس آئے گا، اپنے بیٹے کو تلاش کرتے کرتے دارفانی سے کوچ کرگئی۔ ان کا بیٹا عابد حسین ایک طالب علم تھا۔زونہ بیگم راج باغ سرینگر سے تعلق رکھتی تھیں، ان کا بیٹا مئی 1996 میں لاپتہ ہو گیا تھا جب بھارتی فورسز نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا ۔ ان کا بیٹا امتیاز احمد محکمہ جنگلات میں افسر تھا۔ زونہ 2011 میں اپنے بیٹے کا انتظارکرتے کرتے انتقال کر گئیں۔بٹہ مالوکے علاقے سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بیگم کا فروری 2020 میں انتقال ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے بشارت احمد شاہ کے انتظار میں25 سال گزارے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ بشارت کو 7 جنوری 1990 کو بھارتی پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں نے سوپور کے علاقے سے گرفتار کیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر عالمی اداروں کو مقبوضہ علاقے میں کشمیری ماؤں کو درپیش مشکلات کا نوٹس لینا چاہیے۔