سرینگر (نیوز ڈیسک )بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میںوادی کشمیر کے بہت سے دیہات بنیادی انسانی ضرورت: پینے کے صاف پانی سے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی بقا کے لیے ایک مسلسل اورانتھک جدوجہد میں مصروف ہیں ۔
اپنی قدرتی خوبصورتی کیلئے دنیا بھر میں مشہور وادی کشمیر کے82دیہات زندگی کی بنیادی ضرورت پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ ان دیہات کے رہائشی پانی کے حصول کیلئے دور دراز آبی ذرائع تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں پر محیط پید سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی دہائیوں سے وادی کشمیر کے یہ دیہات آلودہ پانی کے ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں اوراس وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے ، روزانہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ وادی کشمیر کی وہ ندیاں جو کبھی صحت بخش غذا فراہم کرتی تھیں، بیماریوں کی افزائش گاہوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور خاموشی سے گائوں والوں سے ان کی صحت اور امیدیں چھین رہی ہیں۔جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد کا ایک دور افتادہ گائوں اینڈروان، کوکرناگ چشمہ کے قلب میں واقع ہے، جہاں ایشیا کا سب سے بڑا ٹرائوٹ فش فارم بھی موجود ہے،شدید آبی بحران کا شکار ہے ۔ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کے بغیر، اینڈروان کے دیہاتیوں کوناقابل تصور مشکلات کا سامنا ہے ۔اس پرسکون گائوں کے 4سورہائشیوں کیلئے پانی کا حصول روزانہ کی جدوجہد ہے۔گائوں کی خواتین مسلسل پانی کے بحران کا بوجھ اٹھاتی ہیں اور وہ بغیر کسی موسم کی پرواہ کیے روزانہ پانی کے حصول کی مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں ۔دن میں دو بار گائوں کی خواتین اپنے سروں پر پانی کے گھڑے رکھ کر ناہموار راستوں اور ڈھلوانوں پرسفر کرتی ہیں ۔ ایک بزرگ خاتون زرینہ بیگم نے میڈیا کوپینے کے پانی کے حصول کیلئے گائوں کی خواتین کی روزانہ کی جدوجہد کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ علاقے کی خواتین روزانہ صبح شام کھانا پکانے اور پینے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی لانے کیلئے پہاڑی سے نیچے پانچ کلومیٹر پیدل چل کرجاتی ہیں ۔سر پرگھڑے رکھ کر یہ خواتین روزانہ پانی کے حصول کیلئے اپنے پانچ گھنٹے صرف کرتی ہیں ۔ایک مقامی رہائشی قیصر احمد لون نے دی وائر کو بتایا کہ گائوں کی خواتین روزانہ پانی کے حصول کیلئے گھر سے نکلتی ہیں ۔ خالی برتنوں اورگھڑوں کو اپنے سروں پر رکھ کر یہ خواتین پانی کیلئے میلوں تک کٹھن راستوں پر پیدل چلتی ہیں۔ان کا یہ سفر کسی تالاب یا بہتی ہوئی ندی پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے جہاں سے وہ پانی بھر کر واپس گھروں کو روانہ ہوتی ہیں اور گھر واپسی پر انہیں وزن اٹھا کر اونچی پہاڑیوں پر چڑھنا پڑتا ہے ۔گائوں کی55سالہ معمر خاتون فریدہ بانو نے دی وائر کو بتایا کہ پانی لانے کا مشکل کام خود فطرت کے خلاف ایک جنگ بن گیا ہے،پانی لانے کیلئے خواتین کا ہر سفر خطرے سے بھرپورا ہوتا ہے۔ فریدہ نے بتایا کہ پانی لانے کیلئے گھر سے جانیوالی خواتین کو جنگلی جانوروں کے خطرے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سردیوں کے موسم میں پانی لانے کا کام زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے،برفبادی کے دوران پھسلن کی وجہ سے بہت سی خواتین گرنے کی وجہ سے عمر بھر کیلئے معذور ہو جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پانی لانے کیلئے گھر سے نکلنے والی خواتین کو ریچھ اور چیتے جیسے جنگلی جانور کے حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 2014 میں ان کی بیٹی کو ریچھ نے حملہ کر کے عمر بھر کیلئے معذور کردیا تھا۔گائوں کے سرپنچ شوکت احمد نے دی وائر کو بتایا دیہاتوں نے اپنے گھروں کے قریب سڑک کے کنارے پلاسٹک کے ڈبے رکھے ہیں جنہیں کبھی کبھار محکمہ جل شکتی کے ٹینکر بھرجاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ گائوں کی خواتین ہر صبح 7 بجے پانی لانے کیلئے5 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہیں اور دن 12بجے گھر واپس لوٹتی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے بہت سے دیہات پینے کے صاف پانی سے مسلسل محروم
مناظر: 621 | 17 Jun 2023