اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) باراک اوباما نے جمعرات کو ایک امریکی نیوز چینل ”سی این این“ کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارتی معاشرے میں کمزور طبقات کے حقوق کے متعلق تشویش کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ جوبائیڈن انتظامیہ کو ان مسائل پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ خلوصِ دل سے گفتگو کرنی چاہیے کیونکہ اگر بھارت میں مذہبی و نسلی اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ سلوک نہ رکھا گیا تو بھارت تقسیم ہو سکتا ہے۔
سابق امریکی صدر نے کہا کہ اگر جوبائیڈن نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہیں تو انہیں ہندو اکثریت والے بھارت میں مسلمان اقلیت کے تحفظ کا ذکر ضرور کرنا چاہیے، میں نریندر مودی کو اچھی طرح جانتا ہوں اور اگر میں ان سے بات چیت کرتا تو ان سے ضرور یہ کہتا ک اگر آپ نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو عین ممکن ہے کہ انڈیا کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ پر خلوصِ نیت سے بات چیت ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح کے شدید اندرونی تنازعات بھارت کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، بھارت کے اندرونی حالات نہ صرف وہاں کی مسلمان اقلیت کیلئے بلکہ ہندو اکثریت کیلئے بھی اچھے نہیں ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی میں صدر جوبائیڈن کے سب سے بڑے حامیوں میں شمار کیے جانے والے باراک اوباما کا کہنا تھا کہ صدر جوبائیڈن نے جمہوریت کے دفاع کو اپنی انتظامیہ کا مرکز بنا رکھا ہے، انہوں نے چینی صدر کو ڈکٹیٹر کہا اور اس پر قائم ہیں جبکہ وہ اس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی میزبانی بھی کر رہے ہیں جو آمریت پسند ہے اور ایک آزاد خیال جمہوری نہیں ہے۔
باراک اوباما نے امریکی صدر کی حیثیت سے جنوری 2015 میں دہلی میں ”یومِ جمہوریہ“ کی تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کی تھی، انہوں نے 27 جنوری 2015 کو دہلی میں ہی ایک خطاب کے دوران بھارت میں سماجی ہم آہنگی کے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی معاشی ترقی اس کے اتحاد پر منحصر ہے، ہم دنیا میں جس امن کے متلاشی ہیں اس کا آغاز انسانی دلوں سے ہوتا ہے اور فی الحال بھارت کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اس بنیادی قدر کو برقرار رکھنا بھارت کیلئے ناگزیر ہے، انڈیا اس وقت تک کامیاب رہے گا جب تک یہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہو جاتا۔