نئی دہلی (نیوز ڈیسک ) بھارت کے نامور ماہرین تعلیم نے کہا ہے کہ این سی ای آر ٹی کی طرف سے اسکول کے نصاب میں حالیہ تبدیلیاں تعصب، تعلیم دشمنی اور سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلیاں تعلیمی قابلیت کے فقدان کو ظاہرکرتی ہیں اور یہ طلبا ء کو سماجی طور پر پسماندگی سے لے کر مغلوں تک اور جمہوری حقوق سے لے کر مساوات تک مختلف موضوعات اور تصورات کے تناظر سے محروم کر سکتی ہیں۔ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این سی ای آر ٹی کے حالیہ نصاب کی نظرثانی کے بارے میں ایک مباحثے میں انیتا رامپال، اپوروانند، نیلادری بھٹاچاریہ ، ستیش دیشپانڈے اور دیگر نے اس رحجان کو اجاگرکیاکہ حذف شدہ مواد زیادہ تر ذات پات، تنوع، اسلام اور مغلوں کے بارے میں تھا ۔ انڈین اکیڈمک فریڈم نیٹ ورک کے زیر اہتمام مباحثے کے دوران بھٹاچاریہ نے کہا کہ مواد میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ایک وژن یا اصول کے تحت ہونی چاہیے، ایسا سیاسی بنیادوں نہیں ہونا چاہیے۔رامپال، اپوروانند، بھٹاچاریہ اور دیش پانڈے یہ تمام 2005اور 2008کے درمیان این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابیں تیار کرنے کے عمل میں شامل رہے ہیں۔این سی ای آر ٹی کی حالیہ تبدیلیوں میں دسویں جماعت کے سائنس کے نصاب سے ارتقائی نظریے کو ہٹانا شامل ہے۔ نصابی کتابیں تیار کرنے والے ادارے نے یہ کہتے ہوئے مواد حذف کرنے کا جواز پیش کیا کہ اس کا مقصد کوروناوبا کے باعث طلباء پر بوجھ کم کرنا تھا۔ ٹیلی گراف کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ رامپال اور اپوروانند نے کہا کہ نیشنل کریکولم فریم ورک (NCF) وہ دستاویزہے جو نصابی کتب کی تحریر میں رہنمائی کرتی ہے اور 2005اور 2008کے درمیان تیار کی گئی این سی ای آرٹی کی نصابی کتابیں تدریسی اصولوں پر مبنی ہیں۔انہوں نے کہاتاہم انصاف، تفاوت-مساوات اور تنوع کے تصورات جو اس وقت نصابی کتب میں شامل کیے گئے تھے، 2022اور 2023 میں کی گئی نظرثانی کے دوران جان بوجھ کر چھوڑ دیے گئے ہیں۔رامپال نے این سی ای آر ٹی کی طرف سے تیار کردہ این سی ایف کے مسودے پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اس سے طلباء کو خیالات کی دنیا میں درست رہنمائی نہیں ملے گی۔
