سرینگر24جولائی(نیوز ڈیسک ) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کوایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی جانب ایک اور قدم کے تحت مودی حکومت نام نہاد جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019میں ترمیم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ ہندو تارکین وطن کے لیے قانون ساز اسمبلی میں تین نشستیں مختص کی جاسکیں۔
دو سیٹیں ان ہندوئوں کے لیے مختص کی جائے گی جنہوں نے وادی سے نقل مکانی کی ہے اور ایک سیٹ ان لوگوں کے لیے رکھی جائے گی جو تقسیم ہندکے وقت آزاد جموں و کشمیر چھوڑ کر مقبوضہ علاقے کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے تھے۔ اس کا مقصد انتخابات ہونے کی صورت میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی اسمبلی میں بھارت کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنا اورعلاقے میں ایک ہندو وزیر اعلیٰ کو مسلط کرنا ہے۔ مودی حکومت نے حد بندی کمیشن کے ذریعے پہلے ہی ہندو اکثریتی جموں خطے کواضافی 6اور مسلم اکثریتی وادی کشمیر کو صرف ایک نشست دی ہے حالانکہ جموں کی آبادی وادی سے کم ہے۔جموں و کشمیر تنظیم نو ترمیمی بل 2023بہت جلد بھارتی لوک سبھا میں پیش کیا جائے گا۔حالیہ حد بندی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 107سے بڑھ کر 114ہو گئی ہے جن میں نو نشستیں درج فہرست قبائل کے لیے مختص ہیں۔ ترمیم شدہ بل کے تحت جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر قانون ساز اسمبلی کے لیے دو سے زیادہ اراکین کو نامزد نہیں کر سکتے جن میں سے ایک خاتون کشمیری تارکین وطن کی کمیونٹی سے ہوگی۔