نئی دہلی 28 جولائی (نیوز ڈیسک ) بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں کشمیر میں 2019 سے اب تک تقریباً دس ہزار خواتین لاپتہ ہو چکی ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا ”راجیہ سبھا “کو بتایا کہ جموں کشمیر میں 2019 سے اب تک 18 سال سے اوپر اور اس سے نیچے کی عمر کی 9 ہزار 7سو65خواتین اپنے گھروں سے لاپتہ ہو چکی ہیں۔
2019 سے 2021 تک کے اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ ان تین برسوں میں 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کے 1 ہزار1سو48کیسز سامنے آئے اور 18 سال سے زائد عمر کی 8 ہزار6سو17 خواتین لاپتہ ہوئیں۔اطلاعات کے مطابق ابھی تک ان خواتین کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
مقبوضہ جموںوکشمیر میں خواتین کی گمشدگی کی بنیادی وجہ وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم علاقوں میں بھارتی فوجیوں، پیراملٹری اہلکاروں ،این آئی اے اور ایس آئی اے جیسی بدنام زمانہ ایجنسیوں خوفناک ایجنسی کے پر تشدد آپریشن اور گھروں پر چھاپوں کے دوران خواتین سمیت مکینوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک ، گرفتاری، پوچھ گچھ اور ہراساں کرنا شامل ہے۔2019کے بعد بھارتی فوجیوں اور پیر املٹری اہلکاروں کی طرف سے کشمیری خواتین بالعموم کم عمر لڑکیوں کو ذہنی طورپر ہراساں کرنے، انہیں گرفتار اور اغوا کرنے کی بہیمانہ کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔بھارتی فوج غیر انسانی کارروائیوں کیلئے کسی کے آگے جواب دہ نہیں ، فوجیوں کو کالے قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت کشمیریوں کو قتل ، گرفتار،اغوا اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بے دریغ اختیارات حاصل ہیں۔بھارتی حکومت بے گناہ کشمیریوں کے جعلی مقابلوں میں قتل پر فوجیوں کو ترقیوں ، انعامات اور تمغوں سے نوازتی ہے۔