پاکستان اور سعودی عرب کامعاہدہ تو اب منظر عام پر آیا ہے لیکن پاکستان عرب دوستوں کو دفاع میں خودمختار بنانے کے مشن پر دسمبر 2023 سے عمل پیرا ہے۔ اب تک اس میدان میں کامیابیوں کی تفصیل دشمن کے لیے ہوشربا بھی ہو اور ناقابل یقین بھی۔ اس پر بات پھر کبھی ہوگی کہ “ہم کہاں کہاں سے گزر گئے” اور ہمارے مضبوط قدموں کے نشان کہاں کہاں چمک رہے ہیں۔ سردست زیر بحث دہشت گردی اور اس کے خلاف اقدامات ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مئی 2025 کے بعد سے بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ ایک ایک حملے میں 30 سے 50 تک شیطان کے پجاری مردار ہو رہے ہیں۔ دونوں جانب دہشت گردوں کی قیادت اور انفراسٹرکچر تباہی سے دوچار ہے اور اپنے رب سے امید ہے کہ یہ جنگ اب اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب خضدار سے خیبر تک امن ہوگا اور ان دہشت گردوں کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔ بلوچستان سے خیبر تک اس جنگ میں شدت اس وقت آئی جب آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان سے جوتے کھانے کے بعد بھارت اور اسرائیل نے اپنی غلیظ سوچ کے مطابق دہشت گردی کے ذریعے سے پاکستان کو جھکانے اور بدلہ لینے کی کوشش کی، مگر پاکستان نہ صرف تیار تھا بلکہ ان سے پہلے ہی دہشت گردوں سے نمٹنے کی مکمل تیاری کی جا چکی تھی۔ دشمن کی دہشت گردی میں سرمایہ کاری اور اسرائیل کے ایران پر حملے نے پاکستان کا یہ سفر آسان بنا دیا ہے۔
تاریخ کا یہ سبق ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ ان کی نظریاتی بنیاد کو ہدف نہ بنایا جائے۔ اسی فلسفے کے تحت پاکستان اب دہشت گردی کے اس گند کو ختم کرنے کی خاطر اس پر ہمہ جہتی حملہ شروع کر چکا ہے۔ ایک جانب فورسز دہشت گردوں کو میدان کارزار میں نیست و نابود کرنے کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب ملک بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کی نظریاتی دھوکے کا علاج بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ پاکستان میں ایک جانب پیغام پاکستان کے نام سے دین متین کی اصل تعلیمات کو اجاگر کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، جس میں پورے ملک سے جید، مستند اور معتبر علماء و مفتیان کرام دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پیش کرنے اور فروغ دینے کے لیے سامنے آ چکے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں خونریزی کا بازار گرم کرنے والے خوارج چونکہ دین کا سہارا لیتے ہیں، اسلام کا نام لے کر اسلام پر حملہ آور ہیں لہٰذا لازم تھا کہ ان کے اس جھوٹ، فریب اور فراڈ کو بے نقاب کیا جائے، لہٰذا یہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ حکومت یا فورسز اس جنگ میں تنہا نہیں ہیں، کیونکہ کوئی بھی جنگ اس وقت نہیں لڑی جا سکتی جب تک قوم ساتھ نہ ہو۔ یہ “ساتھ” طاقت یا قانون سازی سے تو کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا، اسی وقت ممکن ہے جب آواز دل سے اٹھے۔ مفتی فساد کی نظریاتی بنیادوں پر حملہ بھی فورسز کے بجائے ملک کے دینی اداروں اور دینی قیادت نے شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ دین کے نام پر انسانیت کے قتل کے مرتکب اور دین کے دشمنوں سے وہ شناخت چھین لی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کے مکروہ کردار کے غلیظ چھینٹے پاکستان کے دینی اداروں پر پڑتے تھے، اور یہ لوگ جذباتی نوجوانوں کو اپنی اس جعلی شناخت سے گمراہ کیا کرتے تھے۔ خبر یہ ہے کہ دینی اداروں نے ان تمام دہشت گردوں کی تعلیمی اسناد کو منسوخ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، جو اپنی دین دشمنی کی وجہ سے دین کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ دین کے نام پر دہشت گردی کرنے والے جہالت کے ان لشکروں میں دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ہے۔ سب سے پہلا وار ان دہشت گردوں کے گروہ غنٹال ٹی ٹی پی کے سربراہ “مفتی الفساد” نور ولی پر کیا گیا ہے، جس کی اسناد منسوخ کر دی گئی ہیں۔ عین 12 ربیع الاول کی مبارک ساعتوں میں اس فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کراچی کی عظیم الشان دینی درسگاہ جامعہ العربیہ احسن العلوم کراچی نے نور ولی محسود کی دورہ حدیث کی ڈگری منسوخ کر دی ہے۔ مدرسے کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق “اس انسانیت دشمن کردار نے 1999 میں اس مدرسے سے دورہ حدیث کی تعلیم حاصل کی تھی۔ پاکستانی اداروں سے موصول ہونے والی معلومات میں اس سابق طالب علم کے غلط (دین دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی) نشاندہی کی گئی۔ ثبوتوں کی فراہمی پر، اس کی وابستگی اور مدرسے کی اسناد کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا، مستقبل میں اسے مدرسے کا طالب علم نہیں سمجھا جائے گا۔ جامعہ العربیہ احسن العلوم کراچی اس دہشت گرد سے برات کا اعلان کرتا ہے۔” کراچی کے ایک اور مدرسے، جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن نے بھی اس کی تخصص فی الفقہ الاسلامی کی ڈگری منسوخ کر دی ہے، جس کی بنیاد پر وہ خود کو مفتی قرار دیتا ہے۔ جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن نے مفتی نور ولی کی ڈگری منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ یہ منسوخی خوارج کے لیے کیا معنی رکھتی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ فیصلہ ہونے پر ٹی ٹی پی کی قیادت نے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا بلکہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے فوری طور پر پاکستانی مدارس کے خلاف طوفان بدتمیزی شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کی افغان طالبان کی کل علمی بنیاد یہی مدارس ہیں، ہیبت اللہ سے لے کر معمولی اہلکار تک انہیں مدارس سے تعلیم یافتہ ہیں۔ جہالت کے اس طومار کا سب سے بڑا ہدف مفتی تقی عثمانی ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مفتی تقی عثمانی وہ واحد شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اپنے دورہ کابل کے دوران ٹی ٹی پی کے اس مفتی الفساد کو مکمل لاجواب کر دیا تھا اور اس کی جہالت اس سے تسلیم کروا لی تھی۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسناد کی منسوخی مدارس اور علماء کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ ان سے اور ان کے اقدامات سے دوری اختیار کر رہے ہیں، جس سے پاکستانی طالبان کے پاکستان کے اندر اپنے جہاد کی نظریاتی بنیاد آہستہ آہستہ کمزور ہو رہی ہے۔ نور ولی محسود، خود کو فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) کا “امیر” کہتا ہے اور جہاد کے نام پر بھتہ خوری اور خونریزی کا مرتکب ہے۔ یہ تو پہلے ہی عیاں تھا کہ وہ نہ تو مفتی ہے، نہ عالم اور اب مدارس کی قیادت نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ اس کے پاس اسلامی علوم کی کوئی باقاعدہ ڈگری ہے، نہ کسی معتبر دینی مدرسے سے سند، اور نہ ہی مذہبی فتوے دینے کا کوئی حق۔ اس کا فساد قرآن سے ثابت جہاد نہیں بلکہ قتل و غارت کا ایک ایسا منصوبہ تھا جو غیر ملکی فنڈنگ سے چلتا ہے۔ نور ولی کی قیادت میں خودکش بم دھماکے، مساجد اور مدرسوں پر حملے، خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانا قطعی طور پر جہاد نہیں بلکہ عمل حرام ہے اور یہ مذہب نہیں، بغاوت ہے اور دین کی توہین ہے۔ اسلام خودکش حملوں، مساجد، مدرسوں، یا معصوم لوگوں پر حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔نور ولی اورا س جیسوں کے لئے قرآن کا حکم بہت واضح ہے ۔ سورہ مائدہ میں فرمایا ۔’’مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِى الۡاَرۡضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيۡعًا، وَمَن احيَاهَا فَكَاَنَّمَا اَحيَا النَّاسَ جَمِيۡعًا ۔وَلَـقَدۡ جَآءَتۡهُم رُسُلُنَا بِالۡبَيِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ كَثِيۡرًا مِّنۡهُم بَعۡدَ ذٰ لِكَ فِى الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ ۔(جس کسی نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر کسی قتل کے قصاص کے یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے (کے جرم کی سزا) کے گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے اس (کسی ایک انسان) کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری نوع انسانی کو زندہ کردیا اور ان کے پاس ہمارے رسول آئے تھے واضح نشانیاں لے کر لیکن اس کے باوجود ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں کرتے پھر رہے ہیں۔المائدہ۔32) ، اس سے اگلی آئت نمبر 33 میں فرمایا ’’اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيۡنَ يُحَارِبُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَسۡعَوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ يُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ يُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَاَرۡجُلُهُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ يُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِؕ ذٰ لِكَ لَهُمۡ خِزۡىٌ فِى الدُّنۡيَا وَ لَهُمۡ فِى الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ ۔(یہی ہے سزا ان لوگوں کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں کہ انہیں (عبرت ناک طور پر) قتل کیا جائے یا انھیں سولی چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں میں کاٹ دیے جائیں یا انھیں ملک بدر کردیا جائے یہ تو ان کے لیے دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے (مزید) بہت بڑا عذاب ہے)۔
مفتی الفساد بے نقاب
مناظر: 881 | 20 Sep 2025
