……. سیف اللہ خالد /عریضہ
عالمی برادری کل 26جون کو ریاستی تشدد کے متاثرین کا دن منا ری ہے ، کیوں نہ اس موقع پر کشمیر کا ذکر کیا جائے۔ دنیا کی سب سے بڑی جیل کشمیر ، جہاں سانس لینے ، زندہ رہنے یہاں تک کہ اپنی مرضی کی جگہ دفن ہونے کی بھی آزادی نہیں۔ دھرتی کا سب سے بڑا مقتل کہ جہاں زندگی کی کوئی قیمت ہی نہیں ، دوگھڑی کے بچوں سے لے کر سوسال کے بوڑھے تک کو درندگی کا سامنا ہے،بعض اوقات دنیا میں آنکھ کھولنے سے بھی پہلے ،ماں کی کوکھ میں ہی زندگی کی متاع عزیز کو لوٹ لی جاتی ہے ،باقی بچتے ہیں ، ماں کے بین ، بہنوں کے آنسو اور بہشت شہداء میں ایک مٹی کی ڈھیری….کشمیرکائنات کاسب سےبڑا عقوبت خانہ …جہاں گولی چلتی ہے، سانس رکتی ہے ، گھر جلتے ہیں ، کھیت اجڑتے ہیں ، حقوق پامال ہوتے ہیں ،روزگار چھینے جاتے ہیں ، معیشت تباہ کی جاتی ہے،کفن فروشی کے سوا سب کاروبار ٹھپ ہیں، مگر حریت فکر کے متوالے پرچم حیات اٹھائے لہروں کی شکل بپھرتے ہیں ، اٹھتے ہیں ،دشمن سے الجھتے ہیں ، للکارتے ہیں ، مرتے ہیں، مارتے ہیں دشمن کو ششدر چھوڑ کر رب کی جنتوں میں جا گزین ہوجاتے ہیں ۔ وہی کشمیر جس کی وحدت ہی اس کی طاقت ہے اور پاکستان سے رشتہ ہی زندگی کی علامت، جہاں آبادیاں سکڑتی اور بہشت شہداء کے نام سے قبرستان پھیلتے جا رہے ہیں ، تین نسلیں پاکستانی پرچم اوڑھ کر قبروں میں جا سوئیں ، مگر دشمن کی کوئی چال ، اپنوں کی کوئی بے وفائی ان کےعزم حریت کو متزلزل نہیں کر سکی ۔جلسوں سورہ یاسین کی تلاوت سے کشمیریوں کا اعتماد حاصل کرکے نہروں کے ہاتھوں بیچ کھانے والا شیخ عبداللہ ہویاخود کو کشمیریوں کا وکیل قرار دے کر امریکہ میں شہداء کی قبروں کی سودی بازی کرنے والا انتشار پرور، خودپسند کھلاڑیی یابھارتی راتب کی خاطر انتشار کے بیج بونے والے چند نام نہاد مودی کے یار شرپسند، ہر بے وفائی نےکشمیریوں کوآزردہ ضرور کیا،دل گرفتہ بھی لازماً ہوئے مگر دل شکستہ ہو کر ہتھیار نہیں پھینکے ، آزادی کے خواب ، اور حریت کے بانکپن سے دستبردار نہیں ہوئے ۔پتھر پر لکیر جیسے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مودی اور امیت شاہ کے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے کشمیریوں کی وحدت میں انتشار کا زہر گھولنے اور آر پار کے حالات کو ایک جیسا قرار دینے کا جھوٹ بول کر بھارت کے گن گانے اور پاکستان کو دشنام دینے والے یہ زرخرید دماغ بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں کشمیریوں کی نمائندہ حریت کانفرنس ،پاسبان حریت اور دیگر کشمیری سیاسی ، سماجی اور حریت پسند تنظیمیں بیدار ہو چکی ہیں ، کل 26جون کو مظفر آباد میں جلسہ ہوگا ،جو انتشار اور افتراء کی تمام تر کوششوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ ز رخرید دماغوں، بکائونفسیات کے حامل راتب خور گمراہی پھیلاتے ہوئے دونوں جانب ایک سے حالات کا پروپیگنڈہ کرکے عام آدمی کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔واحد جواب یہ ہے کہ بھارتی زیر تسلط کشمیر کے اعداد و شمار سامنے رکھ دئے جائیں ۔خود بھارتی میڈیا اور اداروں کے اعدادوشمار کو بھی معتبر مان لیا جائے ، جوکہ معتبر نہیں ہیں ، تو بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کے باعث جنوری 1989سے اب تک 22,976خواتین بیوہ ہوئیں ، ان کے شوہروں کو بھارتی فورسز نے جعلی مقابلوں یا دوران حراست شہید کیا۔ تقریبا 2500کشمیری خواتین آج بھی نیم بیوہ کے نام سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کے شوہر لاپتہ ہیں ۔یہ نیم بیوائیں اپنے شوہروں کی تلاش میں برسوں سے سرگرداں ہیں ۔ 684کشمیری خواتین شہید ہو چکی ہیں۔ نفسیاتی مریضوں میں60فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ ایسے شخص کے خاندان کا تصور کریں جس کا پیارا مارا گیا یااٹھالیا گیا،یا وہ خاندان جن کے گھر تباہ ہو گئے یا جل کر خاکستر ہو گئے۔ کشمیری خواتین کو بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر نشانہ بنایا جانامعمول ہے، ریپ بھارتی فوج کا جنگی حربہ ہے، جس کی انسانیت سوز داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ خواتین حریت رہنما سیدہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، شبروز بانو، آفرینہ گنائی، منیرہ بیگم، صفیقہ بیگم اور عشرت رسول سمیت درجنوں خواتین حق خودارادیت کے جائز مطالبے کی پاداش میں مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں نظر بند ہیں۔ گزشتہ 35برس سے جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی کے سبب ہزاروں کشمیری اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ایسے خاندانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 40 ہزار سے زا ئد ہے۔ 1947سے اب تک 35لاکھ سے زائد کشمیریوں نے آزاد کشمیر،پاکستان،برطانیہ اوردیگر ممالک میں پناہ لی ۔ اقوام متحد سمیت عالمی اداروں کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلم اکثریت کو جبری بے دخلی کی وجہ سے اپنی بقاءکے خطرے کا سامنا ہے جس کا مقصد علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا اور اسے ایک ہندو ریاست بنانا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے جنوری 1989 سے 27 اکتوبر 2022 تک 96ہزار 1سو40کشمیری شہید کیے جن میں سے7ہزار 2سو65کو دوران حراست وحشیانہ تشدد اورجعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران 1لاکھ65ہزار2سو 93افرادکو گرفتارکیا، 1لاکھ10ہزار4سو95مکانات اور دیگر عمارتیں تباہ کی گئیں۔ 22ہزار9سو51خواتین بیوہ جبکہ 1لاکھ7ہزار 8سو 83بچے یتیم ہوئے۔ 11ہزار2سو56خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایاگیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات بھارتی فوجیوں کی تعداد15لاکھ ایک ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ بھارتی فوج کے جوانوں کی تعداد 7لاکھ50ہزار، پیرا ملٹری اہلکاروں کی تعداد 5لاکھ 35ہزار، پولیس اہلکاروں کی تعداد 1لاکھ30ہزار، اسپیشل پولیس آفیسرز کی تعداد 35ہزار جبکہ پچاس ہزار ولیج ڈیفنس کمیٹیاں ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تعداد پندرہ لاکھ ایک ہزار بنتی ہے۔
2010سے اب تک پرامن مظاہرین پر بھارتی فوجیوں اور پیراملٹری فورسز کی پیلٹ فائرنگ سے سینکڑوں نوجوانوں کی آنکھیں زخمی ہوئیں۔سینکڑوں والدین بھارت اورمقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں نظربند ہیںجن میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، نعیم احمد خان، محمد ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد ڈار، شاہدالاسلام، مولوی بشیر عرفانی، بلال صدیقی، امیر حمزہ، غلام قادر بٹ، ڈاکٹر حمید فیاض، نور محمد فیاض، محمد یوسف فلاحی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، زاہد علی، فیاض حسین جعفری، ظفر اکبر بٹ، عمر عادل ڈار، عبدالاحد پرہ، فردوس احمد شاہ، محمد یاسین بٹ، ظہور احمد بٹ، سلیم نناجی، سرجان برکاتی،انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز اوردیگر شامل ہیں۔یہ نظربند مودی حکومت کے بدترین سیاسی انتقام کا شکار ہیں۔ہزاروں کشمیریوں کو جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور خواتین شامل ہیں، اپنے والدین کی غیر قانونی نظربندیوں، مقبوضہ علاقے میں خوف و دہشت کے ماحول، محاصرے اور تلاشی کی مسلسل کارروائیوں اور اپنے باپ اور شوہر کو بھارتی ریاستی دہشت گردی کے باعث کھو جانے کے خوف سے نفسیاتی صدمے کا سامنا ہے۔آزاد کشمیر کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے برابر قرار دینےاور پاکستان کو گالی دینے والے مودی کے یار کشمیریوں کے دشمن عناصر ان اعداد وشمار کو دیکھیں اور پھر ذرا کنٹرول لائن کے اس پر جا کر دونوں جانب ایک سے حالات کی بات کرکے دکھائیں ۔ بھارتی مظالم کو اپنے جسم وجاں پر جھیلنے والے کشمیری پرخچے اڑا کر رکھ دیں گے ۔