سیف اللہ خالد /عریضہ
(گزشتہ سے پیوستہ)
کون نہیں جانتا کہ انتشار کا یہ ایجنڈا کوئی جمہوری عمل نہیں،پاکستان کے خلاف2014 سے جاری بین الاقومی سازش کا تسلسل ہے۔پارٹی قیادت اب جو مرضی وضاحتیں کرتی پھرے ، یہ سب ؑعذر گناہ بد تر ازگناہ کےمترداف ہے، پاکستان کے عوام نے اپنے کانوں سے سنا ، ایک نہیں دو ٹی وی چینلز پر بیرسٹر سیف نے مودی کے نمائندے جے شنکر کو احتجاج میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں جے شنکرہمارے احتجاج سے خطاب کریں،وہ آئیں اور آئین کی بحالی کے لیے ہمارے احتجاج میں شرکت کریں۔ ہندوستان جمہوریت کا دعوی کرتا ہے تو جے شنکر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہمارے احتجاج میں شرکت کریں-جے شنکر کی احتجاج میں شرکت سے پاکستان مضبوط ہوگا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوگااورہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے۔ ‘‘ اس میں کون سا ابہام ہے ، کون سا سیاق وسباق کا مسئلہ جو لوگوں کو سمجھ نہیں آیا۔موصوف کا2022 میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کی حمائت میں بیان بھی آن دی ریکارڈ اوراخبارات کی فائلوں میں محفوظ ہے ، جب ان کی صوبائی حکومت نے اپنی سابق وفاقی حکومت کے 2020کے دہشت گردوں سے معاہدے کی پاسداری کرتےہوئے ہزاروں کی تعداد میں ٹی ٹی پی دہشت گرد پاکستان بلائے اور منصوبہ بندی کے تحت مراد سعید اپنے ہی بلائے دہشت گردوں کے خلاف احتجاج کے نام پر مسلح افواج اور وفاقی حکومت کے خلاف الزام تراشی کررہا تھا ،یہ صاحب میڈیا میں بیان جاری کرتے تھے کہ ’’ یہ ٹی ٹی پی کمانڈر اچھے اور پرامن لوگ ہیں ، ایک کی بہن بیمار تھی ہم نے اسے عیادت کے لئے آنے کی اجازت دی ۔‘‘ کل تک دہشت گردوں کی ترجمانی اور اب مودی کے نمائندے کو ریاست کے خلاف احتجاج کی دعوت ، مگر حد ہے کہ حکومت پاکستان خاموش؟ آخر کیوں ؟کیا اس دعوت نے انتشاریوں کے احتجاج کا مقصد بے نقاب نہیں کردیا ؟ اس سے پس پردہ خوفناک سازش آشکار نہیں ہوگئی ؟کیا انتشار پسندوں نے ہر ریڈ لائن عبور نہیں کرلی ؟ سوال صرف یہ ہے کہ ریاست کہاں ہے؟ حکومت کیا کر رہی ہے ؟ اب تک کوئی کارروائی شروع کیوں نہیں ہوئی؟ مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا ؟ جس وطن کی بنیاد لاکھوں شہدا ء کی ہڈیوں پراٹھائی گئی ، وہ اس قدر لاوارث ہوگیا کہ دہشت گردوں کا ترجمان دشمن ملک کے وزیر خارجہ کو ریاست مخالف احتجاج میں شرکت کی دعوت دےاور اس کے خلاف پتہ بھی نہ پہلے ، قانون گونگا بہرہ اور اندھا بن کر رہ جائے ؟ پاکستان کے ازلی دشمن کو احتجاج میں شرکت کی دعوت نے انتشاریوں کا پول کھول دیا ہے۔ اول تو اس احتجاج کا وقت اور مقام ہی بہت معنی خیز ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم اجلاس کو روکنے کی خاطر انتشاری احتجاج کی کال دینا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس احتجاج میں غیر قانونی طور پر آبادافغان شہریوں کی شمولیت اور ہتھیاروں کی موجودگی ان کے پر امن ہونے کے دعووں پر سوالیہ نشان نہیں ؟ریاسست اب بھی خاموش رہی گی تو قانون حرکت میں آئے گا کب ؟جب پانی سرسے گزر جائے گا ؟ پھر کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسلام آباد پر یہ لشکر کشی ناکام ہونے سےبات ختم ہو گئی تو یہ اس کی غلط فہمی ہے ،یہ پاکستان دشمن عالمی قوتوں کی جنگ ہے ،اس میں گنڈا پور ناکام ہوگا تو پشتونوں کو ورغلانے والا ایک اورناسور سامنے آئےگا، جس پر پابندی کے خلاف بھارتی میڈیا میں سیاپا شروع ہو چکا ہے،وہ بھی ناکام ہواتو بلوچستان میں شورش کو مزید ہوا دی جائے گی، آج ہی محمود خان اچکزئی کا بیان آچکا ہے ’’کہ احتجاج کو بلوچستان تک بڑھائیں گے ۔‘‘ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی انتشاراور فساد کے لیےبین الاقوامی قوتوں کے پاس انتشاری ٹولے سے بہتر کوئی آپشن نہیں اور حکومت انہیں ڈھیل دے کر ، قانون کو حرکت میں نہ لاکر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ایسی ہی غفلتوں اور سازشوں سے پہلے ہی اس ملک کا ایک بازو کٹ چکا ہے۔حکومت کو اب اپنی رٹ قائم کرنی پڑے گی، ورنہ یہ انتشاری رکنے والے نہیں ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکمران کیا نہیں جانتے کہ فتنے کو کنٹرول کیسے کیا جاتا ہے؟، کیا شہبا زشریف کو بھول گیا ہے کہ 90کی دہائی میں مخالفین کو کنٹرول کیسے کیا کرتے تھے ، کیا آصف علی زرداری کو بھول گیا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کیسے ہینڈل کرتے تھے ، اس وقت تو یہ اکیلے اکیلے تھے ، کسی کو چوں نہیں کرنے دیتے تھے ، آج اکٹھے ہیں مگر انتشار سر پر چڑھ کر ناچ رہا ہے۔کیوں ؟90کی دہائی میں ذاتی اقتدار اور مفاد کی لڑائی تھی، اس وقت تو یہ مستعد تھے ، اب ملک کے دفاع اور استحکام کی جنگ ہے، سستی کیوں ،اس وقت کوتاہی ہوبھی جاتی تو خیر تھی ، اب کوتاہی جرم ہوگا ۔
یہ بات بھی غلط نہیں کہ پوری پارٹی غدار اور ملک دشمن نہیں ہوسکتی نہ ہے ، البتہ ملک دشمن محب وطن لوگوں کی آڑ میں واردات کر رہے ہیں ،لازم ہے کہ حکمت عملی وضح کی جائے ، حکومت اس فتنے کو پوری توجہ دے ، ایک جانب ملک دشمنی کرنے والوں پر گرفت میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا جائے تو دوسری جانب محب وطن عناصر کے راستے بند کرکے انہیں ہر حال میں ملک دشمنوں کا ساتھ دینے پر مجبور نہ کیا جائے ، ان سے رابطے استوار کئے جائیں ، قائل کیا جائے،حوصلہ افزائی کی جائے اور راستہ دیا جائے تاکہ ملک دشمنی کا کوڑا کرکٹ صاف ہوجائےاور شفاف لوگ جو بہر حال ملکی سیاست کا اثاثہ ہیں ، انہیں دونوں جانب سے تحفظ مل سکے ، ریاستی کارروائی سے بھی اور ملک دشمنوں کی وارداتوں سے بھی۔ ملک دشمن اور مودی کے یاروں کو البتہ کسی صورت معافی نہیں دی جا سکتی، کیس قیمت پر بھی نہیں ۔