سیف اللہ خالد /عریضہ
بلوچستان میں ماہرنگ بلوچ کو بی ایل اے سپورٹ کرتی ہے تو خیبر پختون خواہ میں منظور پشتین کو ٹی ٹی پی ،دوسرے لفظوں میں ایک جانب ماہرنگ اور بلوچ دہشت گرد ایک دوسرے کا عکس ہیں تو دوسری جانب منظور پشتین کی پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی ہمرنگ اور ہم راز ہیں ، ایک دوسرے کا عکس ، ایک دوسرے کے سہولت کار۔ منظور پشتین کا نام نہاد پشتون قومی جرگہ اور قومی عدالت مکمل طور پر آئین پاکستان سے متصادم ہے اور ایس سی او اجلاس کے موقع پر پاکستان دشمن قوتوں کے ایما پر کھڑا کیا جانے والا ایک ایسا فتنہ ہے کہ جس کا مقصد سوائے بدامنی ، انتشار اور دہشت گردوں کی حمائت کے اور کچھ بھی نہیں ۔ اب ٹی ٹی پی کی جانب سے اس نام نہاد قومی جرگہ کے احترام میں فائر بندی کر کے ثابت کر دیا گیا ہے کہ جرگے کے نام پر یہ ہلا گلا در اصل تحریک طالبان کا ہی ایجنڈا ہے ، جو وہ اپنی لبرل پراکسی کے ذریعہ سے پورا کرنے کی کوشش میں ہے ۔
جیسے جیسے پاکستان کے استحکام کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں ، عالمی استعمار اور پاکستان دشمن عناصر کے تمام گماشتے اینٹی سٹیٹ عناصر یکجا ہو کر صف بندی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ،یہ صرف بی ایل اے اور ٹی ٹی پی یا ان کے حمائتی ماہرنگ اور منظور پشتین ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی طرح کے’’ حشرات ‘‘ ہیں جن کو یہودی و مغربی لابی کی مکمل پشت پناہی حاصل ہےاور وہ پاکستان میں رہتے ہوئے ، یہاں کا کھاتے ہوئے بھی پاکستان دشمنی پر آمادہ ہیں اور اپنا پور ا زور لگا رہے ہیں ۔
کشیدہ سیاسی حالات کے باوجود خیبر پختونخواہ حکومت نے بامر مجبوری ہی سہی کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں پر پابندی پر سختی سے عملدرآمد کا اعلان کر دیا ہے ، جو کہ اچھا اقدام ہے ، بامر مجبوری اس لئے کہنا پڑ اکہ وزیرا علیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ’’وفاق نے پی ٹی ایم پر پابندی لگادی ہے ، جس سے صورتحال خراب ہوگئی ہے ‘‘۔ بہر حال ان کی جانب سے اتنا بھی غنیمت ہے ۔ ضلع خیبر میں ناخوشگوار واقعہ کے حل کے لیے وزیراعلی علی امین گنڈا پور نے اپنی سرکردگی میں جرگہ بلا لیا، فریقین کو شرکت کی دعو ت دی ہے ، جن میں گورنر کے پی اور وزیر داخلہ بھی شامل ہیں۔پاکستان کا سیاسی مزاج ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ سیاسی اور مفاداتی اختلافات جتنے بھی گہرے ہوجائیں ، بات جب ملکی مفاد کی آئے تو سب ایک ہوجاتے ہیں ، اس روائت کو پی ٹی آئی نے توڑا ہے ، اب اگر وزیر اعلیٰ کے پی کے ، اس روائت کی پاسداری کے جانب آرہے ہیں تو یہ ایک خوش آئند امر ہوگا ، بشرطیکہ اس کے مقاصد کچھ اور نہ ہوں ۔ مشیر اطلاعات خیبر پختونخواہ بیرسٹر سیف کا یہ کہنا بھی بلا شبہ ذمہ دارانہ رویہ ہے کہ’’وفاق کے نوٹیفکیشن کے بعد پی ٹی ایم کو کسی قسم کے جلسے جلوس،اجتماع یا کسی سرگرمی کی اجازت نہیں دےسکتے۔پی ٹی ایم آئین پاکستان اور ریاست پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے، کالعدم تنظیم کو گیارہ سے تیرہ اکتوبر کے اعلان کردہ اجتماع کے انعقاد کی اجازت نہیں دی جا سکتی ،کالعدم تنظیم ڈیکلییر ہونے کے بعد ان کی ہر سرگرمی پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ ‘‘ کوکی خیل قبیلے کا مسئلہ اور ان کی تکالیف ایک حدتک قابل فہم ہیں کہ وہ ایک طویل عرصے سے بے گھر ہیں ، ان کا علاقہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہو اہے ، ان کی اس تکلیف کو سیاسی اور پاکستان دشمن ایجنڈے کے طور پر استعمال کرنا پی ٹی ایم کا گھٹیا پن اور مظلوم لوگوں کے استحصال کے برابر ہے ۔ ملک میں اگر سیاسی محاذ آرائی نہی ہوتی تو صوبائی حکومت کوکی خیل کو انگیج کرکے ان کی دل جائی کر سکتی تھی ، تاکہ کوئی مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا ، لیکن بعد از خرابی بسیار ہی سہی بیرسٹر سیف کا دعویٰ ہے کہ کوکی خیل قبیلے کے عمائدین کو بھی مسئلے کے پرامن حل کے لیے انگیج کیا گیا اور تمام اقدامات کمشنر پشاور اور ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ کی کوشش ہے امن عامہ کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ ‘‘ بیرسٹر بڑے کام کے بندے ہیں ، ماضی میں ٹی ٹی پی کمانڈروں کی حمائت میں ان کے بیانات آن دی ریکارڈ ہیں ، سمجھنا مشکل تھا کہ یہ حکومت کے ترجمان ہیں یا ٹی ٹی پی کے ۔اس کا مطلب تو یہ بھی ہے کہ ان کے رابطے بہر حال اہم ہیں ، اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو کسی سیاسی ایجنڈے یا مشکوک سرگرمیوں کے دفاع کے بجائے ملک اور قوم کے مفاد میں بروئے کار لائیں تو ان کے لئے بھی بہتر ہوگا اور ملک کے لئے بھی ، ان کے حالیہ بیانات بہر حال مثبت تبدیلی کا اشارہ ہیں ۔
ملک کے عوام چاہے کسی جماعت سے بھی تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی قومیت کا حصہ ہوں یا کسی بھی سوچ سے ہم آہنگ ہوں ، ان کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ جرگہ پشتونوں کی ایک شاندار اور مضبوط روائت ہے ، جو خونریز جنگوں کو بھی صلح میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور افراد کو قوم کے مضبوط بندھن میں باندھ دیتا ہے،ایک شر پسند کی جانب سے اس روائت کو ملک دشمنی کے لئے استعمال کرنا انتہائی شرمناک عمل پشتونوں اور ان کی روایات کی توہین ہے۔ وزیر اعلیٰ نے درست فیصلہ کیا کہ علاقہ کے تمام مسائل کو حل کرنے کی خاطر اسی پشتون روائت کو آگے بڑھایا اور ایک وسیع تر جرگہ بلالیا ہے ، جس میں انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو بھی دعوت دی ہے ، یہی جرگے کی ہمیشہ سے روائت رہی ہے کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے جرگے میں بیٹھتے ہیں ، اپنی بات کرتے ، دلیل کی جنگ لڑتے اور صلح کے بعد ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یاروں کی طرح اٹھتے ہیں ۔ پشتون عمائدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قبائلی روایات کو ملک دشمن اور شر پسند عناصر کے ہاتھوں پامال نہ ہونے دیں،جرگے کے طاقتور میڈیم کو مسائل کے حل ، دہشت گردی کی روک تھام اور تحفظ وترقی کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے ، پشتینی ایجنٹوں کو اسی پلیٹ فارم سے مسترد کرنا چاہئے ۔