تحریر: سلمیٰ اسد
حزب اللہ کے نئے رہنما نعیم قاسم نے گزشتہ ہفتے ایک تقریر میں بے ساختہ اور بےفکری سے لفظ “فتح” پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ “جس طرح ہم جولائی 2006 میں جیتےتھے ، آج بھی اسی طرح سے جیتیں گے۔” تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ لبنان کی 2006 کی جس فتح کا وہ حوالہ دے رہے ہیں ، وہ لبنانی عوام ، ریاست اور خود حزب اللہ کو بہت مہنگی پڑی تھی ،جدوجہد کے حوالہ سے اسے فتح کہا جا سکتا ہے ۔ لہذا اب 2024 میں بھی لبنانی عوام کے لیے فتح حاصل کرنے کا تصور پوری طرح سے درست نہیں ہے۔ عالمی میڈیا کہہ سکتا ہے کہ قاسم کسی ایک فائدہ کاحوالہ نہیں دے سکے ، جو موجودہ قتل عام کےنتیجے میں لبنان کو حاصل ہو سکتا ہے، لیکن جدوجہد اور مزاحمت کے فتح وشکست کے پیمانے نفع ونقصان سے ماوریٰ اور الگ ہوتے ہیں ۔ نعیم قاسم نے اسرائیلی شہروں کی وسیع رینج پر حملہ کرنے کی “مزاحمت” کی صلاحیت پر فخر کیا، لیکن دوسری جانب حزب اللہ کے راکٹوں کی ہر عمارت پر اسرائیل نے بمباری کرتے ہوئےمزید ایک درجن لبنانی دیہات کو بھی تباہ کردیا، جنوب میں ان میں سے ایک چوتھائی پہلے ہی زمین بوس ہو چکے ہیں اور تباہی شمال کی طرف پھیل رہی ہے۔ غزہ میں شہریوں کو متعدد مرتبہ نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اورروزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد بےگھر ہو رہے ہیں کیونکہ اسرائیل مسلسل ان کمیونٹیز کی تعداد کو بڑھا رہا ہے جن پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی فسطایئت کو بے نقاب کرنا بھی ان غریب خاندانوں کے لئے فتح سے کم نہیں ، جو ملبے تلے اپنے بچوں سمیت سب کچھ کھوچکے ہیں؟اور اسی فتح کا انہیں انتظار ہے ۔
ایک وقت تھا جب بیشتر لبنانی حزب اللہ کی ایسی بیان بازی کو ازراہ تفنن دیکھتے تھے اور سنجیدہ پیرائے میں نہیں لیتے تھے لیکن جب قاسم نے پچھلے ہفتے اعلان کیا کہ “اگر اسرائیلی اس تصادم کو روکنا چاہتے ہیں تو یہ ہماری شرائط پر ہوگا،” اوریہ بھی کہا کہ اب حزب اللہ “پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو کر نکلے گی۔” اس طرح کے بیانات نے لبنانیوں کو جسمانی طور پر پسپا کر دیا،کیسی شرائط؟ جب کہ ملک کا اتنا بڑا حصہ بے گھر اور بے سہارا ہو چکاہے۔دشمن پر پڑنے والے ہر قابل فہم بوجھ اورجھنجھلاہٹ کاحوالہ دیتے ہوئے قاسم نےان اعداد و شمار پرخوشی کا اظہار کیاجس میں بتایا گیا ہےکہ جنگ کے بعد 300000 اسرائیلیوں کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہوگی لیکن وہ ان لاکھوں لبنانیوں کو بھول رہے ہیں جنہیں صدمے اور نقصانات کے لیے کبھی نفسیاتی مدد بھی نہیں ملے گی۔ لبنان ،غزہ کے یتیموں کی طرح اس جنگ کی ہولناکی کو برداشت کر رہا ہے، ایک ایسی جنگ کی ہولناکی جو مستقل طور پر لبنانی بچوں کی ایک اور نسل کو نفسیاتی طور پرنہ صرف بکھیر کر رکھ دے گی بلکہ وہ نقصان دہ اثرات الگ ہیں جو تعلیم میں تعطل کے باعث ہوں گے۔
حزب اللہ کی قیادت کا مسلسل خاتمہ، اسے مکمل طور پر ایران پر انحصار کرنے اور ایرانی احکامات کے تابع چھوڑ دیتا ہے ۔”مزاحمت کے محور” کے طور پرحزب اللہ کی جانب سے کرہ ارض کی سب سے مضبوط سپر پاور کی حمایت یافتہ،اور خطے کی مضبوط ترین فوج کے ساتھ لڑائی کے بعد قومی لبنانی ترجیحات کے لیےجوابدہی کا کوئی دکھاوا بھی نہیں ہے۔ یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ حوثی، الحشد الشعبی اور قدس فورس واضح طور پر
کسی بھی معنی خیز طریقے سے لبنان کے بچاؤ کے لیے نہیں آسکتے اور نہ آئیں گے۔آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران پر اسرائیل کے تازہ حملوں کے لیے “کچلنے والے جواب” کا عزم کیا، کچھ لوگوں نے پیش گوئی کی کہ یہ انتقامی کارروائی عراق اور شام سے نکلے گی، جو صرف عرب دنیا کے وسیع ترحصے کو قتل عام کی طرف راغب کرنے کے لیے کام کرے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ حزب اللہ اور ایران اپنے مزاحمتی منصوبے کا جائزہ لیں جو کہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا ہے اورجسے اسرائیل نے بڑی آسانی سے تحلیل کردیا ہے۔ قاسم کے اس فخر کے برعکس کہ حزب اللہ امن کے لیے اپنی شرائط خودنافذ کرے گی، لیکن اس پر توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی کہ جب سرما کی آمد پر موسم گیلا اور سخت سرد ہو گا اور آبادی کا ایک چوتھائی حصہ بےگھر ہو گا تو جبری طور پر بےگھر ہونے والے لاکھوں شہریوں کو کون پناہ، لباس اور مدد فراہم کرے گا؟ ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اوربڑھتی ہوئی تباہی تشویشناک ہے، لیکن اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کی تاریخ اور ثقافتی ورثے کو مٹانے کے لیے مشترکہ طور پرکام کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتےبعلبیک شہر(جوانسانیت کی قدیم ترین بستیوں میں سے ہے) کے کچھ حصے ملبے کا ڈھیربن گئے۔ حالیہ برسوں میں لبنان کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کامسلسل شکاررہی ہے اورلبنان نے اپنے پیشہ ور افراد، نوجوانوں اور تخلیقی شخصیات کی بڑی تعداد کے اخراج کو برداشت کیا ہے جبکہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی یہ برین ڈرین اب سیلاب میں تبدیل ہوچکا ہے،جو بھی بچ سکتاتھاوہ اپنی جان بچانے کے لئےلبنان سے بھاگ رہا ہے۔
لبنان ایک شاندار ملک ہے، جس کی آبادی تعلیم یافتہ، مہذب شہریوں پر مشتمل ہے، جس کی ایک تعلیم یافتہ اور نفیس تاریخ ہے۔ لبنان کی مختلف کمیونٹیز کو متحد ہونا چاہیے اور پارلیمانی سپیکر نبیہ بری اور وزیر اعظم نجیب میقاتی جیسی شخصیات کو یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ وہ لبنان کی نجات کے لیے اس قومی کیمپ میں بلاشک وشبہ کھڑے ہیں۔ اسی صورت میں حزب اللہ اور ایران کو یہ ماننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ لبنان کی تباہی کی طرف غلط راستے پر گامزن ہیں ۔ اس کے باوجود کہ قاسم کو اس کے ایران کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہے تاہم اس جنگ کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کی اجازت دینا لاحاصل ہو گا۔ صرف دشمن ریاست کے ایجنڈے کی خدمت میں، اجتماعی خودکشی نہ کرنے کی خاطر، حزب اللہ کے زندہ بچ جانے والے قائدین کو اپنے غرور کو نگل لینا چاہیے اور فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے( اگر کچھ بچانامقصود ہے)۔
امریکہ کی جانب سےثالثی کی جاری کوششوں سے قطع نظر، درمیانی مدت کا نقطہ نظر سنگین ہے، اسرائیل، قاسم اور خامنہ ای دونوں کی طرف سے لڑائی کے بیانات کے ساتھ ساتھ، اپنی جارحیت پر لگام ڈالنے کے لیے اپنے قریبی اتحادیوں کے مطالبات پر بھی توجہ نہیں دے رہا۔ وسیع تر ایجنڈا صرف حزب اللہ کو بے اثر کرنا نہیں ہے، بلکہ جنوبی لبنان کی آبادی کا خاتمہ اور غیر حقیقی قبضہ، لبنانی ریاست کا خاتمہ اور عرب دنیا کو نیچا دکھانے کی پالیسی ہے۔ اسرائیل اور ایران کے جنگی ایجنڈے ایک دوسرے کی طرح بدنیتی پر مبنی ہیں۔ قاسم کو جنوبی لبنان کے تمباکو نوشی کے کھنڈرات پر گہری نظر ڈالنی چاہئے وہاں اس کی کوئی فتح نہیں ہے۔
لبنان میں تباہ کن اسرائیلی حملے کے پس پردہ حقائق
مناظر: 904 | 8 Nov 2024