نئی دلی (نیوز ڈیسک )بھارت کے دارلحکومت نئی دلی میں غیر ملکی نامہ نگاروں کے کلب نے نئی دلی میں غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ تین سروے کیے ہیں جن میں بھارت میں آزادی صحافت کی صورتحال کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 2020سے 2022کے دوران کیے گئے تین سروے کے اعدادو شمار بھارتی وزارت خارجہ کو بھجوائے گئے ہیںتاہم وزارت نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا ہے جس سے بھارت میں آزادی صحافت کے بارے میں مزید سوال اٹھ گئے ہیں ۔ فارن کراسپونڈنٹس کلب کے سروے کے اعدادو شمار منظر عام پر نہیں لائے گئے ہیں ۔کلب کا پہلا سروے جنوری 2020میں کیا گیا جس میں 40صحافیوں نے حصہ لیا۔ یہ سروے 5اگست 2019کے بعد کیاگیا جب مودی حکومت نے بھارتی آئین کی دفعہ 370اور 35-Aکو منسوخ کردیا تھا جس کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت اور اس کے شہریوں کو خصوصی حقوق حاصل تھے ۔اس دوران ریاست آسام میں قومی شہریت رجسٹر بھی جاری کیا گیا تھا۔بھارت میں ان دو اہم واقعات کی کوریج کرنے کے خواہشمند غیر ملکی صحافیوں کو مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر اور آسام جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔پہلے سروے میں غیر ملکی صحافیوں نے کہا کہ انہیں سفری اجازت دینے سے انکار، ویزا کی غیر یقینی صورتحال اور ملک بدری کی دھمکیوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ سروے میں شامل کئی صحافیوںنے کہاکہ بھارت میں کئی مسائل پر حکومت کے خلاف رپورٹنگ کی وجہ سے انہیں ہراساں کیاگیا۔ ایک غیر ملکی صحافی نے بتایا کہ مودی حکومت بھارت میں مسلمانوں پرڈھائے جانے والے ظلم وتشدد کے بارے میں رپورٹنگ کو روکنا چاہتی ہے۔ ایک اورصحافی نے کہا کہ 2020میں ایک بھارتی سفارت خانے اس کے ادارے کو “بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وتشدد ستم کی کوریج نہ کرنے “کے لیے ای میل کی تھی۔سروے میں شامل بہت سے صحافیوں نے بتایا کہ انہیں بھارتی وزارت خارجہ کے حکام نے “طلب”کر کے انہیں وہ فائلیںدکھائیں جن میں ان کی تنقیدی رپورٹنگ کی تفصیل موجود تھی۔انہوں نے مزید بتایا کہ سرکاری عہدیداروں نے غیر ملکی صحافیوں پر “ایک ایجنڈا” پر کام کرنے کا الزام بھی لگایاتھا۔دوسرا سروے اپریل 2021میں کیا گیا جس میں 41صحافیوں نے حصہ لیا۔ انہوں نے بھی ویزے کے مسئلے کو صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار قرردیا۔ بھارتی حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو صرف دو سے چار ماہ کے ویزے دیے گئے اور اس میں توسیع کیلئے انہیں چکر لگوائے گئے ۔ایک صحافی کہاکہ انہیں بتایا گیا کہ ویزا میں توسیع اسی صورت میں ملے گی جب وہ مودی حکومت کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کریں گے ۔ 2021میں96فیصدغیر ملکی صحافی کو آسام اورمقبوضہ کشمیرجانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیاگیاتھا۔30غیر ملکی صحافیوں جنہوں نے مقبوضہ کشمیراور آسام سے رپورٹنگ کرنے کیلئے 2019میں اجازت طلب کی تھی صرف 9کو ہی اس بارے میں جواب دیا گیا ۔متعددصحافیوں نے بتایا کہ انہیں بھارتی حکام نے “کشمیر” کی صورتحال کے بارے میں خبریں دینے پر طلب کیا تھا۔ ایک غیر ملکی صحافی نے کہا کہ ستمبر 2019میں جب وہ رپورٹنگ کیلئے آسام گیا تو حکام نے اسے زبردستی واپس بھجوادیا۔تیسرا سروے فروری 2022میں کیا گیا جس میں 21 غیر ملکی نامہ نگاروں نے حصہ لیا۔ بھارت میں غیر ملکی صحافیوں کیلئے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کی غرض سے سازگار ماحول قائم کرنے میں مودی حکومت کی وجہ سے اس سروے میں بہت کم صحافیوں نے حصہ لیا۔تیسرا سروے میں بھی گزشتہ دو سروے کے نتائج کی عکاسی ہوتی ہے۔ 2021میں خصوصی رپورٹنگ پرمٹ کیلئے درخواست دینے والے ایک غیر ملکی صحافی کو مقبوضہ کشمیر اور آسام جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔مزیدیہ کہ تینوں سروے کے دوران صحافیوںکے ہراسگی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ایک صحافی نے دعویٰ کیا کہ ریاست کرناٹک میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں ایک انٹرویو کرنے پر ان سے پوچھ گچھ کی گئی اورانٹرویو کے شرکاء کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔ایک اور صحافی نے کہا کہ تشدداورملک بدری کے ساتھ ساتھ ویزا میں توسیع نہ دینے کی دھمکیاں بھارت میں غیر ملکی صحافیوں کو ہراساں کرنے کے عام ہتھکنڈے ہیں۔ وزارت خارجہ کی طرف سے غیر ملکی صحافیوں کیلئے جاری کئی گئی ہدایات کے مطابق غیر صحافیوں کو آٹھ شمال مشرقی ریاستوں، پورے جموں و کشمیر، لداخ، انڈومان اور نکوبار جزیروں، لکش دیپ اور ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور راجستھان میںبین الاقوامی سرحدکے ساتھ علاقوں تک رسائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔