عمرفاروق /آگہی
یکم دسمبر 2022کوجی 20کی سربراہی ایک سال کے لیے انڈیا کوملی تومودی نے اس عالمی معاشی واقتصادی فورم کواپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرتے ہوئے امسال ستمبرمیں جی 20کاسربراہی اجلاس سری نگرمیںمنعقدکرنے کااعلان کردیا۔اس ایونٹ کے ذریعے مودی دراصل مقبوضہ کشمیرپراپنے غیرقانونی قبضے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے غیرقانونی اقدام کے حوالے سے بین الاقوامی دنیاکوگمراہ کرناچاہتاہے ۔اس اجلاس کے ذریعے بھارت دنیاکویہ پیغام دیناچاہتاہے کہ کشمیر پر انڈیا کا مئوقف بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہے اور یہاں سب کچھ معمول پر ہے۔واضح رہے کہ جی 20 دنیاکی بڑی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے، اس کے اراکین میںارجنٹائن،آسٹریلیا،برازیل،کینیڈا،چین،فرانس،جرمنی،بھارت،انڈونیشیا،اٹلی،جاپان،میکسیکو،روس،ارجنٹائن،آسٹریلیا،برازیل،سع،فرانس،جرمنی،بھارت،انڈونیشیا،اٹلی،جاپان،میکسیکو،روس،سعودی سعودی عرب،جنوبی افریقہ،جنوبی کوریا،ترکی،برطانیہ، امریکہ،اوریورپی یونین شامل ہیںتاہم یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک انفرادی طور پر اس کے رکن نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ جی 20 ممالک دنیا کی جی ڈی پی کا 80 فیصد ہے، جبکہ یہ ممالک بین الاقوامی تجارت کے 75 فیصد اور آبادی کے 60 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انڈیاکواس بڑے فورم کی سربراہی دینابھی زیادتی ہے ،بھارت 1ارب 30کروڑسے زائدکی آبادی ہونے کی وجہ سے ایک عالمی منڈی ضرورہے مگراسے ترقی یافتہ معیشت نہیں قراردیاجاسکتا،بھارت اب بھی نہایت سنگین سماجی مسائل کے ساتھ ذات پات ، نسلی امتیاز ،مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی پالیسی، انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور ماحولیاتی آلودگی کا شکار ایسا ملک ہے جس کے دوہرے معیار پر عالمی قوتوں کی خاموشی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔بھارت میں غربت انتہا ئی سنگین مسئلہ ہے بھارت کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) کی جاری رپورٹ کے مطابق ماہانہ 25 ہزار آمدنی والے 10 فیصد، جبکہ 15 فیصد آبادی کی ماہانہ آمدنی پانچ ہزار روپے یا 64 ڈالر سے بھی کم ہے۔ عدم مساوات کی وجہ سے بھی پچھلے چالیس برسوں میں، غریب ترین بھارتی ریاستوں کی اقتصادی ترقی قومی اوسط سے کم رہی ہے۔بھارت کو ماحولیاتی مسائل کابھی سامناہے دنیاکے آلودہ ترین شہروں میں بھارت کے بڑے شہروں کاشمارہوتاہے، اس کے ساتھ ساتھ بھارت میںمختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکیںچل رہی ہیں جن میںپنجاب، آسام اور مقبوضہ کشمیر نمایاں ہیں،خصوصامقبوضہ کشمیرکے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کووہ مسلسل پائوں تلے روندرہاہے ایسے حالات میں بھارت کوجی 20کاممبربنانااورپھرسربراہی دیناکسی طورپربھی درست نہیں ۔بھارت کی صدارت کے بعدجی 20 کے ممالک کے اختلافات بڑھ گئے ہیں نریندرمودی جیسے قاتل اوردہشت گردکے بس میں بھی نہیں کہ یہ ان ممالک کے مسائل حل کروائے اس کی واضح مثال تین دن قبل نئی دہلی میں ہونے والا جی20 ممالک کے وزرائے خارجہ کااجلاس تھا جو اختلافات کی نذرہوگیااس اجلاس کے بعدروس یوکرین جنگ کی وجہ سے یہ اختلافا ت مزیدشدت اختیارکرگئے ہیں ،بھارت کی طرف سے روس سے تیل کی درآمدمیں اضافے کی خبرنے بھی جلتی پرتیل کاکام کیا امریکہ، فرانس، انگلینڈ، جرمنی، کینیڈا اور اٹلی جیسے جی 7 کے ارکان ملکوں نے فیملی فوٹو (سبھی وزرائے خارجہ کے فوٹو سیشن) سے منع کردیا۔اورمشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوسکا ۔ان اختلافات کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں جی 20کاسربراہی اجلاس کھٹائی میں پڑنے کاخطرہ پیداہوگیاہے حالانکہ بھارت اس اجلاس کی کامیابی کے لیے سرتوڑکوششیں کررہاہے اسی غرض سے مودی حکومت اس اجلاس کے حوالے سے 50سے زیادہ شہروں میں 200 سے زیادہ پروگرامات منعقدکررہی ہے ،ایک طرف یہ پرو گروامات ہیں تودوسری طرف حالیہ سالوں میں کشمیریوں سفاکیت کی انتہاکردی ہے ۔ کشمیریوں کی زمینوں ،جائیدادوں اوراملاک پرذبردستی قبضہ کیاجارہاہے ،کشمیریوں کی آوازکودبایاجارہاہے ۔پوری دنیاسے کرونالاک ڈائون ختم ہوگیاہے مگرکشمیر میںیہ لاک ڈائون ابھی بھی جاری ہے مواصلاتی نظام کو بند کردیا گیاہے، فوجی محاصرہ سخت کردیا گیاہے، عوامی اجتماع پر پابندی عائدہیں، میڈیا کو خاموش کردیا گیاہے اور کشمیری رہنمائوں بشمول بھارت نواز سیاستدانوں کو عوامی بغاوت سے روکنے کے لیے جیلوں میں بند کردیا گیاہے۔مقبوضہ کشمیر کو 2019 میں خطے کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے انٹرنیٹ کی مسلسل بندش کا سامنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں کو 2022 میں دنیا کے تمام خطوں حتی کہ روس اور ایران سے بھی زیادہ انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا کرنا پڑاسرف شارک کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی انٹرنیٹ کی بندش میں سے 20 فیصد مقبوضہ کشمیر میں ہوئی۔فروری 2022 میں ہیومن رائٹس واچ نے آزاد میڈیا پر شدید کریک ڈائون کی مذمت کی اور کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے، دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف کارروائیوں پر آواز اٹھائی۔ ستمبر 2022 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میڈیا پر پابندیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر بڑے پیمانے پر پابندیوں کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کشمیر پریس کلب کو بند کردیا گیا ہے۔ایک طرف انڈیاجی 20کاسربراہی اجلاس کشمیرمیں کرناچاہتاہے مگردوسری طرف وہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل ،ہیومین رائٹس واچ اورانسانی حقوق کی دیگرتنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت نہیں دیتا ،مقبوضہ کشمیرمیں غیرملکی سیاحوں کوسفرکی اجازت نہیں ہے ،جس کی وجہ سے کشمیریوں کاروزگارختم ہوکررہے گیاہے ۔مقبوضہ کشمیرکے عوام بھی جی 20اجلاس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ،بھارت کی طرف سے تمام ترپابندیوں کے باوجود کشمیر میںسری نگر اور دیگر علاقوں میں پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ خطے جموںوکشمیر میں G-20 سربراہ اجلاس کشمیریوں کے مقدس لہو او ر جذبات و احساسات کی توہین ہے۔یہ پوسٹرز آزادی پسند تنظیموں جموں و کشمیر ڈیموکریٹک موومنٹ، جموں و کشمیر مزاحمتی تحریک، جموں و کشمیر پیپلز ریزسٹنس پارٹی اور سٹوڈنٹس اینڈ یوتھ فورم نے چسپاں کیے ہیں۔ سکھ بھی اس موقع پرباہرنکل آئے ہیں، خالصتان کے قیام کی مہم کی قیادت کرنے والی تنظیم سکھس فار جسٹس نے نئی میں G-20ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد انکو لکھے گئے ایک کھلے مراسلے میںمطالبہ کیاہے کہ خالصتان ریفرنڈم کے ذریعے بھارت میں اپنے لیے ایک الگ وطن کے حصول کے انکے مطالبے کی حمایت کریں۔ تنظیم نے کہا کہ سکھ جو پنجاب کی ریاست میں اکثریت میں ہیں 1948سے اپنے لیے الگ وطن خالصتان کے قیام کامطالبہ کر رہے ہیں لیکن بھارتی حکومت انکی پرامن تحریک کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ سکھس فار جسٹس نے G-20ملکوں پر زور دیا کہ وہ مودی حکومت کی طرف سے خالصتان ریفرنڈم کے خلاف تشدد کے استعمال کا نوٹس لیں۔پاکستان بھی بھارت کی اس بساط کولپیٹنے کے لئے آوازبلند کررہاہے اوراس نے مقبوضہ کشمیر میں جی20 کی کانفرنس منعقد کرنے کے مودی حکومت کے شرمناک منصوبے کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔اس ضمن میں پاکستانی وزارت خارجہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے سفارتی سطح پر مودی کی تجویز کو ناکام بنانے کے لیے سینہ سپر ہونا ہوگا۔ اس وقت بھارت کے امریکا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ بھارت نے پھر روس کو اپنا آقا تسلیم کرلیا ہے۔چنانچہ پاکستان بھارت اور امریکا کے درمیان اس چپقلش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان چین، سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیاسے بھی اس حوالے سے بات کرسکتاہے ۔ انڈیا جی20 کے اجلاس میں بنگلہ دیش، مصر، ماریشس، نیدرلینڈز، نائجیریا، عمان، سنگاپور، سپین اور متحدہ عرب امارات کو مہمان ممالک کے طور پر مدعو کرنے کااعلان کیاہے پاکستان ان ممالک سے بھی رابطہ کرسکتاہے ، اگر ہماری سفارت کاری جان دار رہی تو مودی اپنے مذموم عزائم میں ضرور ناکام ہوگا اور اسے آج نہیں تو کل کشمیریوں کو ضرور ان کا حق دینا ہوگا۔
کشمیرمیں جی 20اجلاس اوربھارتی عزائم
مناظر: 267 | 6 Mar 2023