عمرفاروق /آگہی
ایک دھکا لگا تھا، آج ایودھیا میں رام مندر بن رہا ہے۔ آنے والے وقت میں ایک اور دھکا لگے گا اور متھرا میں ایک اور عالیشان مندر تعمیر ہوگا۔ ایک اور دھکا لگے گا اور کاشی (بنارس) میں بھی ایک مندر بنے گا۔ سننے والو، کان کھول کر سن لو۔ راجہ سنگھ کسی کے باپ سے ڈرنے والا نہیں ہے۔30 مارچ یعنی رام نومی (ہندو دیوتا رام کی پیدائش کا جشن) کے روز کی ایک وائرل فوٹیج میں حیدرآباد میں کپڑوں سے ڈھکی ایک مسجد کو دیکھا جا سکتا ہے جس کے مینار شام میں سبز رنگ میں روشن نظر آ رہے ہیں۔ زعفرانی جھنڈے والا ایک جلوس اس مسجد کے سامنے آ کر رکتا ہے اور اونچی گاڑی میں سواریہ شخص تقریر شروع کر دیتا ہے۔یہ وہی راجہ سنگھ ہے جو بی جے پی کا رکن ہے کچھ عرصہ قبل اس نے پیغمبراسلام کی توہین کی تھی ۔وہ مسلسل نفرت انگیزتقاریرکررہاہے اورمسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکارہاہے ۔یہ صرف راجہ سنگھ کی تقریرنہیں ہے بلکہ بی بی سی ایک رپورٹ کے مطابق ایک مربوط اورمنصوبہ بندی کے تحت رام نومی اور ہنومان جینتی کے ہندو تہوار منانے کے موقع پر مہاراشٹر، بہار، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، گجرات، اتر پردیش، مغربی بنگال، تلنگانہ اور راجستھان جیسی ریاستوں سے اسی طرح کی متشدد اور نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں۔مسئلہ صرف تقاریرکانہیں بلکہ اس دن پرتشددواقعات میں سینکڑوں مسلمانوں کوزخمی کیاگیا مسلمانوں کی ملکیتی املاک، کاروبار اور عبادت گاہوںکونقصان پہنچایاگیا ان پرتشددواقعات پرسوشل میڈیاپرایک صارف نے لکھا کہ ہندو تہوار انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ڈرائونا خواب بن گئے ہیں۔بی جے پی کی حکومت اور نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد انڈیا میں موجود اقلیتوں پر تشدد، دھمکانا، ان کو ہراساں کرنا اور ہجوم کے تشدد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ گائے کو جواز بناکر دلت اور مسلمانوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے، بعض اوقات انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ہجوم اکھٹا ہوکر اقلیتی افراد کو مارتا ہے اور ان کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتا ہے۔خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں میں اضافہ ہواہے۔ مذہبی عدم رواداری، منافرت اور انتہا پسندی کے بعد انڈیا کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت انڈیا میں اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔ مودی کے اقتدارمیں آنے کے بعدبھارت کاچہرہ تیزی سے ایک متعصب تنگ نظر اور تشدد پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے۔ تنگ نظر ہندو ازم کا زہر پوری ریاست میں پھیل رہا ہے اور اقلیتوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ختم کیاجارہاہے۔ عیسائیوں، مسلمانوں اور سکھوں کو یہ کہہ کر ان کا استحصال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں چلے جائیں کیونکہ بھارت صرف ہندوں کی سرز مین ہے، یہاں کسی اور گروہ ، فرقے یا مذہب کی جگہ نہیں۔ وی ایچ پی(ویشوا ہندو پریشد)، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) ، آر ایس ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ)، بجرنگ دل اور ڈی جے ایس (دھرم جاگرن سمیتی)جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلسل طاقت پکڑ رہی ہیں اور ان شدت پسند تنظیموں نے ہندو نوجوانوں کو سنگھ پریوار کے نام پر متحد کرنے کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ان کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ان پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا ہے کہ ان کے لئے سانس لینا بھی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ ہندوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں عیسائیوں اور سکھوں کو تعلیم روزگار تجارت غرض ہر شعبے میں پسماندہ رکھا جائے تاکہ بالآخر یہ ریاست چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ امریکہ میں قائم کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ڈوگ بینڈو نے ایک مضمون میںلکھا ہے اقلیتوں پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم اور تشدد نے نریندر مودی کے آج کے ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دہلیز تک پہنچادیا ہے،بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جسے حکمران جماعت بی جے پی کے رہنماوں کی طرف سے اکسایا جارہا ہے،اقلیتوں کے خلاف امتیازی قانون سازی کی جارہی ہے ۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 20 مارچ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہاہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ، مودی حکومت ایسے بھارتی مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے، جو حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کے گھروں اور معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے،ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہندو قوم پرست حکمران جماعت نے2014میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے عمل کو کافی فروغ دیا ہے۔اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں، یونائیٹڈ سٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کہاہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ہندو قوم پرست ایجنڈے کو فروغ دینے والی پالیسیاں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔حکومت نے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف موجودہ اور نئے قوانین کو تبدیلیوں کے ذریعے قومی اور ریاستی دونوں سطحوں پر ہندو ریاست کے اپنے نظریاتی وژن کو منظم کرنا جاری رکھا ہوا ہے ۔ انسانی رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ غیر ہندووں کے خلاف تبدیلی مذہب کے قانون بنائے جارہے ہیں، یگرمذاہب کے ماننے والوں پر مذہب کی تبدیلی کے لیے دبائو ڈالاجارہاہے ۔ پچھلے سال کے آخر تک، صرف ریاست اتر پردیش میں 50 سے زیادہ پادریوں کو تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے تحت قید کیا گیا تھا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم یمنسٹی انٹرنیشنل کی اسٹیٹ آف دی ورلڈ ہیومین رائٹس 2022/23کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت اقلیتوں کو خاموش کرانے کیلئے انسداد دہشت گردی اورمنی لانڈرنگ قوانین استعمال کررہی ہے ہندوتواتنظیموں کومسلم خاندانوں کے گھروں اور کاروبار مسمار کرنے میں انہیں مکمل حکومتی سر پر ستی حا صل ہے ۔بھارت میں قبائلیوں اور پسماندہ کمیونٹیز بشمول دلتوں کو تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارتی حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف غیر متناسب طور پر فوجداری قوانین کا استعمال کیا کیونکہ پولیس معمول کے مطابق مسلمانوں کو نماز پڑھنے، جائز کاروباری لین دین کرنے اور گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں گرفتار کرتی ہے۔ ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کے کاروبار کے معاشی بائیکاٹ کرنے کیلئے لوگوں کواکسایاجاتاہے۔گھرواپسی مہم کے نام پرلوگوں کو زبردستی، خوف دھونس، مالی لالچ اور ہر ممکن طریقہ کار کا استعمال کرکے ہندوبنایاجارہا ہے،یہ گھر واپسی مہم کی جڑیں انڈین متعصب ہندو جماعتوں کی بیسویں صدی کے شروع میں چلائی جانے والی شدھی تحریک سے ملتی ہیں۔ مودی کی طرف سے ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ جس کے تحت دوسرے مذاہب سے ہندو مذہب اختیار کرنے پر پابندی تو نہ ہو مگر ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنا یا جرم ہو یا اسے قانونی طور پر انتہائی مشکل بنا دیا جائے۔مودی مسلم کش اقدامات پرمعروف اسکالر پروفیسر نوم چومسکی نے گزشتہ سال ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ بھارت نے مسلمانوں کو مظلوم اقلیت میں تبدیل کردیا ہے، اسلامو فوبیا کے رجحان میں جہاں پورے مغرب میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں بھارت میں یہ اپنی مہلک ترین شکل اختیار کر رہا ہے۔ بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیم سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس (سی جے پی)نے سال 2022 کو بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور ظلم و تشدد کا سال قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ریاستی سرپرستی میں ہوئے، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف مظالم کرنے والے عناصر کی ریاستی سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔مودی سرکارکی طرف سے اقلیتوں کے خلاف مظالم دراصل اس ایجنڈے کی تکمیل ہے جس کی طرف حال ہی میں راجہ سنگھ نے ریاست مہاراشٹرا کے علاقے احمد نگر میں ہندو تنظیموں کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کیاہے کہ بھارت 2026تک ہندوراشٹر بن جائے گا اگر50سے زائد اسلامی ممالک اور 150سے زائد عیسائی ممالک ہوسکتے ہیں تو ہندوستان کو ہندو راشٹرا کیو ں نہیں قرار دیا جاسکتا؟ جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔مذکورہ بیان اندلس کے اس واقعہ کی یاد تازہ کرتا ہے جب جب وہاں سے لاکھوں مسلمان شہید کئے گئے، تقریبا 30 لاکھ مسلمان جلا وطن کردیے گئے اور جو باقی بچے تھے انہیں زبردستی عیسائی بنایا گیا -اس وقت ہندو بنیے نے اپنے متعصبانہ نظریات کی آڑ میں انسانیت سے جو سلوک روا رکھا ہوا ہے اس سے خود بھارت کی سالمیت کو خطرہ ہے جس کی پیشن گوئی چندسال قبل معروف صحافی اور ادیب خشونت سنگھ نے اپنی کتاب، دی اینڈ آف انڈیا، میں کی تھی : بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے پاکستان یا دنیا کا کوئی بھی ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گا بلکہ یہ اپنے آپ ہی تعصبانہ رویوں کی بدولت خودکشی کا ارتکاب کر ے گا ۔