سرینگر (نیوز ڈیسک)بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں کیونکہ مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کے بعد مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے خلاف ناروا کارروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس نے اپنی ایک تجزیاتی رپورت میں کہا کہ بھارت نے 2020 میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد مقبوضہ علاقے میں آزاد صحافت تقریباً ناممکن بنا دی ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے انتہائی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں ہراساں ، اغوا کیا جاتا ہے ، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔
تجزیے میں نشاندہی کی گئی کہ سچ بولنے ، مقبوضہ علاقے کی حقیقی صورتحال اجاگر کرنے اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کا پردہ چاک کرنے پر کشمیری صحافیوں کیخلاف پبلک سیفٹی ایکٹ، یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل سمیت کئی صحافیوںکو کالے قوانین کے تحت نظر بندی کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 1989 سے اب تک متعدد کشمیری صحافی مارے جاچکے ہیں اوربہت سے د زخمی ہو چکے ہیں۔
تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں صحافت اور صحافیوں پر قدغنیں لگاکرعلاقے کے زمینی حقائق دنیا سے چھپانا چاہتا ہے لہذا یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسکا نوٹس لے اور مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کو آزادانہ طریقے سے کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے۔