اسلام آباد26جون(نیوز ڈیسک ) بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر پر اپنے غیر قانونی تسلط کو طول دینے اور حق خودارادیت کے کشمیریوں کے جائز مطالبے کو دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے آج” تشدد کے شکارافراد کی حمایت ”کے عالمی دن پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے دوران جنوری 1989سے اب تک 96,211کشمیریوں کو شہیدکیا جن میں سے 7,297کو دوران حراست اورجعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا۔بھارت ریاستی پالیسی کے طور پر تشدد کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے جس کے تحت جموں و کشمیر کے لوگوں کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2001سے اب تک فوجی اور پیراملٹری فورسزکے اہلکار 683خواتین کو شہید کرچکے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ کشمیری خواتین کی اکثریت متعدد نفسیاتی مسائل اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے 1989سے اب تک کریک ڈائون اور فوجی کارروائیوں کے دوران خواتین اور بچوں سمیت 168,009کشمیریوں کو گرفتار کیا۔ گرفتار افراد کو مختلف تفتیشی مراکز، تھانوں اور جیلوں میں بھارتی فوج، پیراملٹری فورسزاور پولیس اہلکاروں نے جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی بڑے پیمانے پر اور بلاامتیاز تشدد کو ایک جنگی ہتھیار کے طوپر استعمال کررہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن2000سے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے لوگوں پر گولیوں، پیلٹز، آنسو گیس کے گولوں اور منظم طریقے سے تشدد کے استعمال سے مرد، خواتین اور بچوں سمیت 96,717کشمیری زخمی ہو چکے ہیںجن میں 19ماہ کی حبا جان، 8 سالہ شاہد فیاض، 9 سالہ اویس احمد، 10 سالہ آصف احمد شیخ، 16 سالہ عاقب ظہور، 17 سالہ الفت حمید، 17 سالہ بلال احمد بٹ 17سالہ انشا مشتاق، 18سالہ طارق احمد گوجری، 19سالہ فیضان اشرف تانترے، 19سالہ ندیم، 15سالہ ساحل حمید بٹ، عفرا، شبروزہ،20سالہ پرویز احمد،24سالہ دانش رجب،30سالہ شکیلہ، 14سالہ زاہد نثار، ،یاور یوسف، قیصر احمد اور 22 سالہ عارف احمد وگے شامل ہیں ۔یہ لوگ پیلٹ لگنے سے ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج،پیراملٹری فورسز، سپیشل آپریشن گروپ، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اور ریاستی تحقیقاتی ایجنسی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں متعدد ٹارچر سینٹرز قائم کر رکھے ہیں جہاں معصوم کشمیریوں سے معلومات اور اعترافی بیانات حاصل کرنے کے لیے ان پر وحشیانہ تشدد کیاجارہا ہے۔ کارگو، ہرینواس، پاپاون، پاپاٹو اور ہمہامہ بدنام زمانہ ٹارچر سینٹرز رہے ہیں جبکہ پولیس اسٹیشن سب سے بدنام تفتیشی مراکز ہیں۔ ان تفتیشی مراکز میں پوچھ گچھ کے دوران شدید تشدد کی وجہ سے ہزاروں کشمیری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سرکردہ رہنما محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ دوران حراست انتقال کر گئے جبکہ ممتاز آزادی پسند رہنما محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کو دوران حراست تشدد کے ذریعے لئے گئے اعترافی بیانات اور جعلی مقدمات کی بنیاد پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، مشتاق الاسلام، مولوی بشیر احمد، بلال صدیقی، زمرودہ حبیب، یاسمین راجہ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، محمد یوسف میر، محمد یوسف فلاحی ، محمد رفیق گنائی، ظفر اکبر بٹ، حیات احمد بٹ، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، غلام قادر بٹ، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، محمد احسن اونتو، صحافی آصف سلطان اور فہد شاہ سمیت تین ہزار سے زائد حریت رہنما، کارکن، سیاست دان، علمائے کرام، انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی بھارت اورمقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قوانین کے تحت نظربند ہیں تاکہ کشمیریوںکے حق خودارادیت کے مطالبے کو دبایاجائے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت جموں و کشمیر پر اپنے غیر قانونی تسلط کو طول دینے کی غرض سے تحریک آزادی کو دبانے کے لئے بڑے پیمانے پر ذہنی اورجسمانی تشدد اور خوف و ہراس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا کہ کشمیری خواتین کی اکثریت متعدد نفسیاتی مسائل اور ذہنی تشدد کا شکار ہے۔رپورٹ کے مطابق اس ختم نہ ہونے والی اذیت کی وجہ سے کشمیری بیوائیں، نیم بیوائیں نفسیاتی اور دیگر مسائل کا شکار ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیرکے نفسیاتی مریضوں میں 60فیصد سے زائد خواتین ہیں۔سرینگر کی ایک طبی ماہر نفسیات زویا میر کے مطابق بہت سے لوگ جسمانی بیماری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذہنی بیماری اس طرح نظر نہیں آتی اس لیے اسے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہاکہ ذہنی بیماری سے بدنامی کا ڈر وابستہ ہے۔ کسی ماہر نفسیات کے پاس جانے والے کو پاگل سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کے بارے میں بات بھی نہیں کرتے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی زندگی 05اگست 2019 کے بعد سے جہنم بن چکی ہے جب نریندر مودی کی ہندوتوا حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر کے علاقے پر فوجی محاصرہ مسلط کردیا۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جیل اور فوجی سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور 05 اگست 2019سے قتل و غارت میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر جعلی مقابلوں میںشہید کیا جاتا ہے اوران کی میتوں کو تحویل میں لے کر نامعلوم مقامات پر دفن کیا جاتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو مقبوضہ جموں وکشمیرتک غیر مشروط رسائی دینی چاہیے تاکہ علاقے میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نئی دہلی کو تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک یا سزا کے بارے میں اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کرنی چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کے بدترین تشدد اور مذموم ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے کے باوجود کشمیری اپنی تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نئی دہلی کے ظالمانہ اقدامات کا نوٹس لینا چاہیے اور کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے بچانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔