ممبئی (نیوزڈیسک) انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز (آئی آئی پی ایس) مشہور ڈیمڈ انڈین یونیورسٹی ہے۔ 63 سال قدیم یہ ادارہ دیگر کاموں کے ساتھ باوقار اور اکثر حوالہ جاتی طور پر پیش کیے جانے والے این ایف ایچ ایس (نیشنل فیملی ہیلتھ سروے) سیریز کے لیے مشہور ہے۔ این ایف ایچ ایس راؤنڈ کے تحت ملنے والے اعداد و شمار کے ڈھیر پر یہ رپورٹ جائزہ پیش کرتی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اس نے ہندوستان کے آبادیاتی اور صحت سے متعلق اطلاعات کے مدنظر آزاد زمینی حالت پیش کی ہے اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ پالیسیاں زمین پر کس طرح اتر رہی ہیں۔ اس طرح آئی آئی پی ایس ایسے اہم اعداد و شمار پر کام کرتی ہے جو ایگزیکٹیو کے لیے آئینہ ہے اور صحیح سمت میں پالیسی پر مبنی کارروائی کو لے جانے میں مدد کرتی ہے۔
اس ادارہ کے ڈائریکٹر مشہور و معروف ڈیموگرافر اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق فیکلٹی رکن پروفیسر کے ایس جیمس کو گزشتہ ہفتہ معطل کر دیا گیا اور جانچ ہونے تک انھیں ہیڈکوارٹر علاقہ ممبئی نہ چھوڑنے کو کہا گیا۔ اس سے آئی آئی پی ایس فیکلٹی اور سابق رکن صدمے میں ہیں۔ اپوزیشن نے اس قدم کی تنقید کی ہے۔ تازہ واقعہ سے سائنسداں اور دیگر فیکلٹی رکن کا فکرمند ہونا فطری ہے۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ نہیں معلوم کہ معطلی کی وجہ کیا ہے، لیکن معاملے کو جاننے والے کہتے ہیں کہ معطلی ڈائریکٹر کو باہر نکالنے کی دیگر کوششوں کا ایک سلسلہ ہے۔ کچھ مہینے پہلے انھیں مبینہ طور پر استعفیٰ دینے کو کہا گیا تھا۔ پروفیسر جیمس نے یہ کہتے ہوئے مبینہ طور پر اس سے انکار کر دیا کہ انھوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے اور بغیر وجہ نہیں جائیں گے۔
یہ معطلی اداروں پر کنٹرول کے لیے ضدی انتظامیہ کے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہونے اور ان لوگوں کو سزا دینے کا اندیشہ ظاہر کرتا ہے جن پر قابو نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سچ ہے کہ یہ معطلی چل رہی جانچ کے سلسلہ میں ہے، سزا نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ حکومت کو شکایتوں یا اسے جو اطلاع ملی ہے، اس کی بنیاد پر جانچ کا حق ہے۔ لیکن اندرونی خبروں پر یقین کریں تو یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ حکومت ڈائریکٹر کو باہر کرنا چاہتی تھی۔ اگر یہ بے ضابطگیوں کا مسئلہ ہے تو جانچ تب کیوں شروع کی گئی جب انھوں نے خاموشی سے عہدہ چھوڑنے سے منع کر دیا۔
یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے جب آئی آئی پی ایس کے کاموں پر اور ڈیموگرافی سے متعلق اعداد و شمار کو ٹھیک سے ایڈجسٹ کرنے میں اس کے کردار پر نظر ڈالیں۔ این ایف ایچ ایس سیریز کے تحت جنم دینے اور بچوں کی صحت، سماجی و معاشی انڈیکیٹرس، ماں اور بچوں کی شرح اموات، پانچ سال سے کم عمر میں موت کی شرح، نقص تغذیہ کی سطح، قوت مدافعت کی رسائی، پانی، صفائی، جنسی تشدد اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسی جدید طرز زندگی کی بیماریوں کے بارے میں جانکاری رہتی ہے۔
این ایف ایچ ایس کی جدید رپورٹ نے ملک کو بتایا ہے کہ 19 فیصد ہندوستانی کنبے کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں (21-2019 کے لیے این ایف ایچ ایس-5)۔ 16-2015 کے لیے این ایف ایچ ایس-4 میں یہ تعداد 39 فیصد بتائی گئی تھی جو کھلے میں رفع حاجت کو مجبور ہیں۔ این ایف ایچ ایس-5 نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں 26 فیصد کنبوں کے پاس اب بھی ٹائلٹ نہیں ہے اور اس لیے وہ کھلے میں رفع حاجت کو مجبور ہیں۔ گزشتہ سالوں کے دوران یہ تعداد میں بہتری ہے، لیکن (اگر آپ ایک طریقے سے دیکھیں تو) یہ وزیر اعظم کے اس دعوے کی ہوا نکال دیتے ہیں کہ دیہی ہندوستان کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہو گیا ہے۔