سیف اللہ خالد /عریضہ
ایک دانشور دوست نے سوال اٹھایا ہے کہ آقا محمد ﷺ اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے ہمارا رشتہ کیا ہے ؟سوال بہت اہم ہے، جس پر ایک طویل بحث موجود ہے ، جس کا یہ محل نہیں ،میرا جواب مختلف لیکن تلخ ہے ، ممکن ہے ، بہت سوں کی طبع نازک پہ گراں گزرے ، کچھ فتووں کے میزائل بھی داغے جا ئیں، لیکن سچ یہ ہے کہ اللہ رب العزت سے لے کر کلام اللہ تک اور آقا محمد ﷺ کی ذات بابرکات سے لے کر آپ ﷺ کے فرمان عالی شان تک ہمارا رشتہ اور رویہ وہ نہیں جو رب چاہتا ہے یعنی ’’سمِعنا و اطعنا‘‘بلکہ اس فہرست میں اگر صحابہ کرام ؓ کو بھی شامل کرلیا جائے تو ہمارا تعلق صرف تقدس اور تعصب کا ہے۔۔ اور بس ۔ہماری ناکامیوں ، رسوائیوں ، ذلتوں اور غلامی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ ہم جن کو مانتے ہیں ، ان کی ایک نہیں مانتے ۔ اپنے گھر میں بھرے لعل وگواہر کو چھوڑ کر کوئلوں سے دامن بھرنے کو رسوا ہوئے پھرتے ہیں ۔ یہ تعصب نہیں تو کیاہے کہ ناموس مصطفےﷺ اور ناموس صحابہ ؓ کی خاطر جان لینے اور جان دینے پر تو آمادہ ہیں لیکن اپنی زندگی اور اپنے معاملات پر ان کا کوئی ایک بھی حکم لاگو کرنے پر تیار نہیں ۔ آج یوم فاروق اعظمؓ ہے ۔ شہنشاہ عدل سیدنا عمر ابن خطابؓ کا یوم شہادت ، صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں گھوم جائیں ، ہر واعظ ، ہر عالم ، ہر مقرر ہر محرر ان کے فضائل بیان کرتا ملے گا ، ان کے عہد زریں کا قصیدہ گاتے پایا جائے گا ، فخر سے بتائے گا کہ آج بھی فلاحی ریاست قرار پانے والے کچھ ممالک میں عمر لاز نافذ ہیں ، لیکن اس پر ایک جملہ بھی نہیں ملے گا کہ سیرت عمر ؓ، عہد فاروقی اور عدل فاروقی کی روشنی میں ہمارے مسائل کا حل کیا ہے ؟حالانکہ اللہ رب العزت کی جانب سے ’’رضِی اللہ عنہم و رضوا عنہ‘‘ کی سند مل جانے کے بعد کسی اور فضیلت کے بیان کی ضرورت ہی نہیں ۔ علم کازوال کہیں یا ،نیتوں کا کھوٹ کہ عالم اسلام کی ہزاروں یونیورسٹیوں ، لاکھوں مدارس ، میں لاکھوں ہی مفتیان کرام اور یسرچ سکالرز کے ہوتے ہوئے کوئی ایک کتاب ، بلکہ کوئی ایک آرٹیکل بھی ایسامستند نہیں ملے گا کہ آخر وہ کونسی پالیسیاں تھیں ؟کہ 24 لاکھ مربع میل پر وسیع ریاست میں ایک بھی انسان بھوکا نہیں سوتا تھا ، وہ کیا اقدامات تھے ؟کہ جن کی بدولت صرف مسلمان ہی نہیں ریاست اسلامیہ کے غیر مسلموں کو بھی بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی وظیفہ ملنا شروع ہوجاتا تھا ۔ مدینے میں مال دولت کی بارش تو نہیں ہوتی تھی ، زمین سے خزانے تو نہیں ابلتے تھے ، کنووں سے پانی جگہ سونا نہیں نکلتا تھا ، نہ درختوں پر پتوں کی جگہ اشرفیاں لگتی تھیں ، جو اب نہیں لگتیں ۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ مسلمان ہی نہیں مستشرقین بھی سر تسلیم خم کرتے ہیں کہ سیدنا عمر ؓنے دنیا کی پہلی فلاحی ریاست قائم کرکے دکھا دی ، جہاں کوئی خیرات لینے والا نہ ملتا تھا ۔ کوئی معاشی پالیسی تو ہوگی ، کوئی اقتصادی حکمت عملی تو رہی ہوگی ؟ تحقیق تو رہی ایک طرف دنیا کے نقشے پر موجود 57 مسلم ممالک میں سے کوئی ایک بھی کم ازکم یہ تو کر سکتا ہے نا کہ جن عمر لاز کو اپنا کر مغربی ممالک فلاحی ریاست بن گئے ، انہی کو ہی کھوج لیا جائے ، وہیں سے تحقیق کا آغا ز کرلیا جائے ۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے ارباب علم ودانش اور ہمارے جامعات کے پاس اپنے فرقے کی حمائت میں دلائل گھڑنے اور مخالف فرقے میں کیڑے نکالنے کا وسیع وقت ہے ، اور اس مقصد کی خاطر فنڈز کی بھی کوئی کمی نہیں لیکن عہد فاروقی کی پالیسیوں اور اقدامات کو کتابوں سے کھوج کر عہد حاضر کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی فرصت ہے نہ ضرورت۔ دعویٰ یہ کہ ہم محمدی ہیں، فاروقی ہیں ،صدیقی ہیں ، عثمانی ہیں اور حیدری ہیں ،چہ نِسبت خاک را با عالمِ پاک۔
کاش میں صاحب علم ہوتا تو تحقیق کرتا ، استاد ہوتا تو راہنمائی کرتا، پالیسی ساز ہوتا تو راہنمائی لیتا،میرے رب نے قلم سے عزت دی ہے ، بات کہنے کا ہنربخشا ہے ، درد دل بیان کرنے کا سلیقہ عطا کیا ہے ۔ اذان دینے کی ذمہ داری سونپی ہے، یہی فرض نبھانے کی کوشش ہے ،ورنہ جانتا ہوں اس نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
پاکستان ہی کودیکھ لیں ،معیشت سے لے کر امن وامان تک، معاشرتی خلفشار سے فرقہ وارانہ فسادات تک، گھریلو زندگیوں سے ریاستی نظام تک کون سا ایسا مسئلہ ہے ، جس کی رہنمائی ہمیں عہد فاروقی سے عطا نہیں ہوتی ۔عہد فاروقی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ معیشت سے امن وامان تک ہر شئے کی بنیاد انصاف ، عدل، احتساب ،خبر گیری دردمندی اور جواب دہی کے احساس میں پنہاں تھی۔ جوابدہی کا احساس کس شدت کا رہا ہوگا کہ ،وقت شہادت جب سنا کہ صحابہؓ ان کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کو ان کے بعد خلیفہ بنانے کا سوچ رہے ہیں تو تڑپ کر حکم صادر فرمایا ’’خبردار ، قیادت کے بار گراں کی اللہ کے ہاں جوابدہی کے لئے خطاب کی نسل میں عمر ہی کافی ہے ۔‘‘ اسی روشنی میں عہد حاضر کی دینی وسیاسی قیادتوں کو تول لیجئے ، کوئی ایک بھی ترازو میں پورانہ اترے گا۔
(جاری ہے)