سیف اللہ خالد /عریضہ
(گزشتہ سے پیوستہ)
سب سے پہلے انصاف وعدل کی بات کریں تو اپنی ذات سے لے کر کوئی بھی صاحب جاہ وجلال ہو یا صاحب علم وعرفان ، صاحب منصب ہو یا کوئی بڑے سے بڑا’’ ابن الاکرمین‘‘ ہونے کا دعویدار ،انصاف کے ترازو میں برابر تھے ، ایک قبطی کے مقابلے میں جلیل القدر صحابی سیدنا عمر ابن العاص ؓ کے بیٹے کو سزا اور خود سیدنا عمر بن العاصؓ کی عہدے سے معزولی کا ذکر گزشتہ روز کے کالم میں ہوچکا ، خود اپنے معاملہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی تنازعہ میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیشی کے موقع پر جب دیکھا کہ جناب زیدؓ نے خلیفہ کا اکرام کیا ہے تو وہیں ٹوک دیا اور فیصلہ صادر کردیا کہ اپنی زندگی میں زیدؓ کو قضاۃ کا عہدہ نہیں دوں گا ، یعنی عہدہ قضاۃ کے لئے نااہل قرار دے ڈالا ۔آ پ کے صاحبزادے ابو شحمہ عبدالرحمٰن الاوسط نے نبید پیا ، بعد میں شک ہوا کہ یہ پرانا تھا ، اس میں نشہ پیدا ہوچکا تھا ، ابو شحمہ نے خود کو گورنر مصر کے سامنے پیش کیا کہ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے ، شرعی حد نافذ کرکے پاک کردیں ، انہوں نے اپنے احاطے میں حد نافذ کردی ، آپ ؓ کو علم ہوا تو بیٹے کو مدینہ بلا کر سر عام دوبارہ حد جاری ، یعنی کوڑے مارے ، یہاں تک ایک ماہ بعد یہ بیٹا چل بسا ۔ آپ کے بیٹے عبداللہ ابن عمر ؓکو مصر سے بیت المال کی کچھ رقم مدینہ منتقل کرنے کی ذمہ داری ملی، انہوں نے اس رقم سے وہاں سے مال تجارت خریدا اور مدینہ لاکر فروخت کرکے اصل رقم بیت المال میں جمع کروادی ، آپ نے منافع بھی بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا ۔ طوالت کا خوف نہ ہوتا تو لکھتا کہ کتنے گورنروں کو عہدہ سنبھالتے وقت کے مال سے زیادہ تمام دستیاب ہونے پر معزول کیا اور مال قومی خزانے میں جمع کروایا، اور کئی ایک کو اس پر سزا کا سامنا بھی کرنا پڑا، یہ کوئی عام لوگ نہ تھے ، بلکہ اپنے وقت کے سردار اور سیدناسعد بن ابی وقاصؓ، سیدناحارث بن کعبؓ اورسیدنا عمرو بن العاصؓ جیسے جیل القدر صحابہ تھے ، خود سیدنا عمر ؓ کی شوریٰ کے اہم رکن ، لیکن قانون کی پاسداری اور احتساب کے معاملہ میں کسی کو کوئی رعائت نہیں دی گئی ۔۔ بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے خلاف شکائت پر انہیں طلب فرمایا اور پوچھا !’’ابو موسیٰ ! میں نے سنا ہے تجھے جو تحائف ملتے ہیں وہ خود رکھ لیتے ہو بیت المال میں جمع نہیں کراتے ؟‘‘حضرت ابو موسٰی اشعریؒ بولے ! حضور وہ تحائف مجھے ملتے ہیں۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا’’وہ تحائف تجھے نہیں تمہارے عہدے کو ملتے ہیں۔‘‘ عہدے سے معزول کیا، ٹاٹ کے کپڑے پہنائے، ہاتھ میں چھڑی دی اور بیت المال سے سیکڑوں بکریاں دے کر کہا ،آج سے تمہاری یہ ڈیوٹی ۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ ہچکچائے،تو فرمایا’’تمہارے باپ دادا یہی کام کرتے تھے یہ تو حضورﷺکے وسیلے سے گورنری مل گئی تھی ۔‘‘ کچھ عرصے بعد حضرت عمرؓ جنگل سے گذرے ، دیکھا بکریاں چر رہی ہیں، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ایک ٹیلے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا ہے۔سیدنا عمرؓ نےپوچھا، سنائوـ! ابو موسیٰ! اب بھی تحفے ملتے ہیں؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بولے۔ حضور ! مجھے سمجھ آ گئی ہے۔یہ عدل فاروقی تھا ، جس میں پائی پائی کا حساب دینا اپنا اولین فرض سمجھا جاتا تھا۔اب تو اس پر لڑائی ہے کہ توشہ خانہ اس نے زیادہ لوٹا ، میں پیچھے کیوں رہ گیا ، اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔آپؓ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تواثاثوں کا تخمینہ لگوا کر سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنا لیتے ،اس پر نظر رکھتے ، خبر لیتے رہتے ، سرکاری عہدے کے دوران اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا توکڑا احتساب کرتے ،کاش میرے ملک میں صرف یہ ایک اصول نافذ ہوجائے تو سوچیں نتائج کیا ہوں ؟معاشرے کے کتنے مسائل حل ہوجائیں گے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ اور اطراف میں قحط پڑگیا ،خشک سالی سے حالت یہ ہوگئی کہ ہوا چلتی تو راکھ کی طرح مٹی اڑتی ، اس وجہ سے یہ سال عام الرمادہ(راکھ کا سال)کہلاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے استطاعت کے باوجود اپنے غلام سے کہدیا کہ الا یذوق سمنا ،لا لبنا ولا لحما حتی یحییی الناس من اول الحیا( گھی، دودھ اور گوشت کا ذائقہ اس وقت تک نہیں چکھوں گا جب تک کہ عام مسلمان پہلی بارش سے فیض یاب نہ ہوجاتے ۔)بارش ہوئی ، بازار میں غلہ آنا شروع ہوا، قحط ختم ہوگیا توغلام 40درہم میں بازار سے گھی کا کنستر اور دودھ کا مشکیزہ خرید لایا۔ حکم دیا : ’’ فتصدق بہما، فانی اکرہ ان آکل اسرافا،کیف یعنینی شان الرعی اذا لم یمسسنی ما مسہم.‘‘ جائو صدقہ کردو ، مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اسراف کے ساتھ کھائوں، مجھے رعایا کا حال کیسے معلوم ہوگا اگر مجھے وہ تکلیف نہ پہنچے جو تکلیف انہیں پہنچ رہی ہے۔ کاش سیدنا عمر ؓ کی زندگی کے یہ اوراق کوئی ہمارے مسلمان حکمرانوں کو دکھا دے ، امت کٹ رہی ہے ، غزہ سے کشمیر تک بھوک ہے ، پیاس ہے ، خوف ہے ،بے امانی ہے ، قتل وغارت ہے ، اور حکمرانوں کے محلات میں سیم وزر کی ارزانی ہے ۔ پاکستان کی بات کریں تو بھی کتنے ہیں جو بھوک کا شکار ہیں ، نصف آبادی خط غربت سے نیچے سسک رہی ہے ،بچوں کی بھوک سے لوگ خودکشی پر مجبور ہیں اور حکمران ؟ اشرافیہ؟ ، ججز؟ ، جرنیل؟ علما ؟ سیاسی و مذہبی قائدین ؟ کوئی ایک؟ جو کہے ، میں اس وقت تک پیٹ بھر کر نہیں کھائوں گا ، جب تک ہر پاکستانی کو پیٹ بھر کر دستیاب نہیں ہوجاتا ۔ کوئی ایک ، کوئی مثال ۔۔ پھر کہتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معیشت میں برکت نہیں ، تم نے برکت والا کام ہی کب کیا ہے ۔
احتساب کرنا ہے تو لائو عمر جیسا احتساب۔ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے جرنیل، جنہیں اللہ نے سیف اللہ کا لقب عطا کیا ، رسول اللہ ﷺ نے دعائیں دیں ، شاباش دی ، اک ذرا بھر بھٹکا تو معزول کر کے گھر بٹھاتے دیر نہیں لگائی ۔جرم کیا تھا؟ صرف یہ کہ مسلسل فتوحات کے دوران ایک شاعر نے قصیدہ کہا تو خالد بن ولید ؓ نے بھاری انعام سے نوازا ، عمر ؓ کو خبر ملی تو اپنے خصوصی نمائندہ محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیجا،حکم دیا کہ ’’سر سے پگڑی اتار کر میرے پاس لائو‘‘ ، اسی حال میں لائے گئے ، وضاحت کی کہ ’’حضور سرکاری مال میں سے نہیں ، ذاتی مال سے انعام دیا تھا ‘‘ فرمایا ’’تم نے اصراف کیا ، میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا ۔‘‘کس کس پالیسی کی بات کریں؟ سب کچھ ہمارے حسب حال ہے ، ہمارے مسائل کا حل اور ہمارا کچھ بھی حسب حال نہیں ۔ سرکاری قرض سے تجارت کا منافع اپنے بیٹے سے واپس لے کر بیت المال میں جمع کروا دیا، عوامی چراگاہ میں پلنے والا بیٹے کا اونٹ قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم صادر فرمادیا ۔سرکاری زمینیں فوجیوں میں تقسیم کرنے کی روایت ختم کر دی، یہاں تک کہ مفتوحہ علاقوں کی زمینیں بھی ۔سرکاری ملازمین کے لئے مفتوحہ علاقوں سمیت غیر ملکی بیویاں رکھنے پر پابندی عائد کر دی۔ ضرورت سے زیادہ یعنی وہ زمین جو کاشت نہیں کی جاتی تھی ،زمینداروں سے لے کر کسانوں میں
بانٹ ڈالی ۔فرمایا ’’زمین رب کی ہے تیرے باپ کی نہیں ۔‘‘ کاش کوئی تحقیق کرے اور بتائے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کس طرح ایک مستقل اسلامی سیاسی نظام تشکیل دیا،جس کی اساس قرآن و سنت تھی، لیکن اس کا عملی نمونہ عمر ؓ کی سیاسی پالیسیوں پرمشتمل تھا، مختلف مشاورتی حلقے تھے اور کوئی چھوٹا بڑا فیصلہ متعلقہ شوریٰ سے مشاورت کے بغیر کبھی نہیں کیا گیا۔ کاش اسلامی نظر ’’آتی‘‘ کونسل کو ہی توفیق ہو تی تو وہ اس جانب توجہ کرتی ، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
( جاری ہے)