سیف اللہ خالد /عریضہ
گزشتہ سے پیوستہ
میرے دیس کا سب سے بڑا مسئلہ جس نے دین کا حلیہ بگاڑ ڈالا ، فرقہ واریت کا زہر معاشرے کی رگوں میں گھول ڈالا ، مساجد تک کو مقتل میں بدل دیا ، اس کا حل ہی کم ازکم عمر ؓسے لے لیں ،حکمران نہیں ،کم ازکم علماءہی اس پر بات کریں ، عمل کا مطالبہ کریں ۔ کون صاحب علم ہے جو نہیں جانتا کہ عہد فاروقی میں ’’بلا ضرورت دینی مسائل بیان کرنے والوں کو کوڑے لگوائے جاتے تھے ‘‘ یاد رکھیں یہ دور صحابہ ؓتھا ، آج کی طرح فتنہ وروں کا عہد نہیں جہاں کبھی کوئی ساحل جیسافاتر العقل ، کبھی جہلم کاجاہل مطلق اور کبھی عالمی اداروں کے پے رول پر دین کا حلیہ بگاڑنے کی ڈیوٹی پر مامور غامدی گمراہیاں بانٹنے پر تلا ہوا ہے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ۔ آپؓ کے عہد زریں میں صرف سقہ اور صاحب علم وصاحب الرائے صحابہؓ کو ہی دینی مسائل واحکامات پر بات کرنے کی اجازت تھی ۔ کچھ اور نہیں تو کم ازکم اس پر تو عمل کرلیں ، فتنو ں کا دروازہ ہی بند کرلیں ۔ مگر پھر وہی بے بسی کہ: خوشی سے مرنہ جاتے گر اعتبار ہوتا ۔
عہد فاروقی کا وہ بنیادی وصف جس نے ریاست اسلامیہ کو فلاحی ریاست میں بدلا ، وہ تھا دردمندی کی پالیسی اور رب کو جوابدہی کا احساس ، جس میں اولیت عام آدمی کی فلاح وبہبود کو حاصل تھی ، صرف مسلمان نہیں ، غیر مسلم بھی رحمت کی ان ضیاء پاشیوں سے منور ہوئے ، مشہور روائت ہے کہ مدینہ کے باہر کسی مقام کے دورے پر تھے ، ایک بوڑھے کو دیکھا بھیک مانگ رہا تھا ، پوچھا تو علم ہوا کہ یہودی ہے ، جزیہ دینے کو بھیک مانگ رہا ہے ، عدل فاروقی تڑپ اٹھا ، وہیں گورنر کو بلایا اور حکم لکھوایا کہ’’ بڑھاپے میں جزیہ معاف اور ہر بوڑھے وبچے کا وظیفہ لگادیا جائے ، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو‘‘ ۔ پھر تاریخی جملہ فرمایا کہ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ جو جوانی میں معاشرے کا کارمد فرد رہا ، وہ بڑھاپے میں جزیہ ( ٹیکس ) دینے کے لئے بھیک مانگتا پھرے۔ یہ عمر کی غیرت کو گوارا ہیں ۔دنیا میں پہلی بارریٹائرمنٹ کا تصور ۔۔ظالمو تم تو غیرت عمر کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ، اللہ کی غیرت کا کیسے سامنا کرلوگے ؟دردمندی اور عوام کی فلاح وبہبود کی فکر کا اندازہ لگائیں ، یمن سے پہلی بار 10 لاکھ اشرفیوں پر مشتمل محصولات پہنچے تو بچوں کی طرح جوش و خروش کے ساتھ قسم کھا کر عوام کے معاشی تحفظ کے حوالے سے یہ تاریخی جملے فرمائے: ’’واللہ لئن بقیت لہم لیاتین الراعی بجبل صنعا حظہ من ہذا المال وہو یرعی مکانہ۔‘‘ اللہ کی قسم! اس مال کو جمع نہیں رکھوں گا، ہر شخص کو اس سے وظیفہ اس کے گھر تک پہنچادونگا۔ مقامِ صنعا (یمن) کی پہاڑیوں پر رہنے والے چرواہوں تک کو اس مال سے وظیفہ ان کے گھروں تک پہنچایا جائے گا۔‘‘ ایسے ہی تو میرے نبیﷺ نے نہیں فرمایا تھا ۔اللھم اعز الاسلام بعمر ابن الخطاب ۔ اک ہم ہیں کہ اپنے لئے اور اسلام کے لئے باعث ذلت وندامت ۔
سب سے اہم اور سب سے بڑے غیر ملکی دورہ ، فتح بیت المقدس کے لئے مذاکرات کی غرض سے سفر تھا ، سکیورٹی اور پروٹوکول کے نام پر ایک اونٹ اور ایک غلام ساتھ ہے، مالک اور ملازم باری باری اونٹ پر بیٹھتے ہیں ۔ منزل پر پہنچے تو امیر المومنینؓ پیدل اور ملازم اونٹ پر سوار ۔ دشمن کے سامنے بھی ترتیب نہیں بدلی ۔لباس کی یہ شان کہ امیرالمومنین کے کرتے پر سترہ پیوند ۔۔ یہ ہے دو بر اعظموں پر مشتمل تاریخ انسانی کی سب سے بڑی اور فلاحی ریاست کا حکمران ۔ یہ ایک ہمارے ہیں ،مقام ومرتبہ میں عمر ؓ کے قدموں کی دھول سے بھی کم تر ، ریاستی خود مختاری آئی ایم ایف کی دہلیز پر قربان ،24کروڑ عوام کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے ، مگر پروٹو ل اور سکیورٹی، کوئی موازنہ ہے ؟
میرے عمرؓ کا سب بڑااور اہم اقدام جو انہیں تاریخ اسلام ہی نہیں ، تاریخ عالم میں ممتاز کرتا ہے ، وہ ہے خود کو ہر کس وناکس کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنا اور تنقید کو نا صرف قبول کرنا بلکہ دوسروں کی رائے کو صائب پا کر اپنے فیصلے تک کو بدل ڈالنا ۔ جمعہ پڑھانے تاخیر سے پہنچے تو کسی نے کہہ ڈالا ’’ تیرے باپ کے نوکر نہیں کہ انتظار کرتے رہیں ، وقت پر آیا کرو ‘‘ناراض نہیں ہوئے، گرفتاری کا حکم نہیں دیا ، منبر پر کھڑے ہو کر وضاحت کی کہ ’’میرے پاس یہ صرف ایک ہی قمیض ہے ، ام عبداللہ یعنی اہلیہ نے اسے صبح دھودیا تھا ، خشک ہونے میں تاخیر ہوگئی ، اس لئے اللہ کی خاطر میری یہ خطا معاف کردیں ،‘‘ اور وہ دو چادروں سے قمیض سلوانے پر اعتراض تو مشہور واقعہ ہے ۔ حکمرانوں اور لیڈروں کی بات توکرلی گئی ۔ لیکن سوال یہ بھی اہم نہیں کہ کیا ہمارے اندر ، ہمارے معاشرے میں وہ بدو زندہ ہے؟ جس نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر فاروق اعظمؓ کی خلافت کے پہلے خطبے کے موقع پر کہا تھا ’’عمر! دین پر رہو گے تو اطاعت کریں گے، ادھرادھر ہوئے تو اس تلوار سے سیدھا کردیں گے‘‘ کیا میرے معاشرے میں وہ بدو موجود ہے؟ جس نے کہا تھا’’ تمہارے نوکر نہیں جلدی آیا کرو ،‘‘ کہیں کسی جگہ بھی وہ بدو پایا جاتا ہے؟ جو برسر منبر خلیفہ وقت کو ٹوک دے کہ ’’خبردار تمہاری بات اس وقت تک نہیں سنوں گا جب تک یہ حساب نہ دو کہ ایک چادر سے میرا کرتا نہیں بنا توتمہارا کیسے بن گیا، حالانکہ تماہارا قد مجھ سے بڑا ہے۔‘‘ عمرؓ کا کردار ، عمر ؓ کی پالیسیاں ، عمرؓ کے فیصلے کوئی متبادل تو کیا، خاک پا کے برابر بھی نہیں ،آج کے حکمرانوں کا تو موازنہ بھی ان پاک ہستیوں کی توہین سے کم نہیں ۔ لیکن کیا وہ بدو بھی اہم نہیں؟ اگر حکمران فاروق اعظمؓ چاہئے توہم وہ بدو کیوں نہیں بنتے ؟
محمد حسین نظیری نیشاپوری نے کیا خوب کہا :
ز فرق تا قدمش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست
حریفِ صافی و دردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کنی بلا اینجاست
بغیرِ دل ہمہ نقش و نگار بے معنیست
ہمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدعا اینجاست
خطا بہ مردمِ دیوانہ کس نمی گیرد
جنوں نداری و آشفتہ ای خطا اینجاست
ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مکش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست