ہفتہ‬‮   23   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

ایجنٹ ۔۔۔۔؟

       
مناظر: 999 | 23 Jul 2024  

 سیف اللہ خالد /عریضہ
لارنس آف عریبیہ عرف کرم شاہ کی داستان پڑھتے ہوئے کمال کا نکتہ سامنے آیا کہ 1915 ء کے آخری عشرے میں جب خلافت عثمانیہ ترکوں اور عربوں کی تقسیم سے آشنا نہیں تھی ، صرف امت مسلمہ تھی تو اس کے مجاہدوں نے انگریز حملہ آوروں کو ناکوں چنے چبوادئیے،مارچ 1916ء میں دریائے دجلہ کے کنارے ترک کرنل خلیل پاشا کےہاتھوں برطانیہ کی دس ہزار سپاہ کو عبرتناک شکست کے بعد انگریز ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی بحث تاریخ میں رقم ہے ، جس میں کہا گیا کہ ’’مسلمانوں کا میدان جنگ میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔لارڈ کرزن نے ہوگرتھ کے ذریعے ” تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے مشن پر عمل کرنے کی ہدایات جا ری کیں اور مسلم خلافت میں تقسیم کے بیج بونے کے لئے ایک بڑا انٹیلی جنس آپریشن لانچ کیا گیا ، جس کے دوکردار لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس اشرف بے، تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ، اگر کوئی ذہن رسا رکھتا ہو تو پاکستان کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ان دونوں کی کہانی پڑھی جائے تو بہت سے عقدے حل اور بہت سے ابہامات دور ہو سکتے ہیں ، بلکہ ان دونوں کے آئینہ میں پاکستان کے بعض اہم کرداروں کا اصل روپ بھی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے سوچنے سمجھنے اور تاریخ سے استفادہ کی عادت چھوڑ دی ہے اور بھول بیٹھے ہیں تاریخ خود کو اسی صورت دہراتی ہے ، جب اس سے سبق سیکھنےو الا کوئی نہ ہو ، سبق سیکھنےوالوں کو کامیابیاں اور عروج عطا کرتی ہے ۔ لارنس آف عریبیہ جس نے عربوں میں ترکوں سے نفرت کاشت کی اور دوسری جانب اشرف بے ، جس نے ترکوں کے دماغوں میں احساس برتری کے نام سے نہ صرف دوسروں کے خلاف زہر بھرا بلکہ دشمن کو ترکی کے راز فروخت کرکے اس عظیم سلطنت کی شکست وریخت کی بنیاد رکھی ، یہی لارنس آف عریبیہ جب کابل سے ہوتا ہوا وزیرستان کے راستے کشمیر آیا ، اور پھر کراچی کے ساحل سے برطانیہ جانےو الے جہاز پر سوار ہو اتو لوگ اسے کرم شاہ کے نام سے جانتے تھے ، اس دور کے دہلی کے اخبار ایک عرصہ تک یہ بحث کرتے رہے کہ لارنس آف عریبیہ اور کرم شاہ ایک ہی شخص کے دو نام تھے یا دو الگ شخصیات ، تاریخ کے سینے میں تو یہ راز بھی محفوط ہے کہ لارنس آف عریبیہ کابل کیوں گیا تھا اور اس نےکشمیر میں قیام کے دوران ایک شادی بھی کی اور کس سے کی ، لیکن یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے ، اس پر بات کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔
خلافت عثمانیہ جب ڈوبی تو وہ کوئی پسماندہ ریاست نہیں تھی بلکہ اس کا جرم ہی یہ تھا کہ تعلیم وترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی پر بھرپور توجہ و سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھی ، مواصلات کو فروغ دینے کے درپے تھی ، ایک جانب برلن سے بغداد تک ریلوے کا نظام قائم کیا جا رہا تھا تو دوسری جانب مکہ ومدینہ کو ریل سے منسلک کردیا گیا تھا ۔ عین اس وقت جب برلن بغداد ریلوے مکمل ہو کر خلافت عثمانیہ کی ریڑھ کی ہڈی بننے والا تھا اور اس کا بغداد کے قریب آخری پل زیر تعمیرتھا تو لارنس آف عریبیہ کو لانچ کیا گیا ۔ لارنس نے 1911 میں بصرہ کے ایک ہوٹل میں اپنا خفیہ ادارہ قائم کیا ، وہ مسلسل اہم معلومات، راز برطانیہ منتقل کرتا۔ لارنس عربی زبان بولنے میں بھی مہارت رکھتا تھا ، اس نے اپنے مشن کو کامیاب بنانے کی غرض سے ڈرامہ کیا ، وہ بصرہ کی مسجد میں گیا اور قبول اسلام کا جعلی اعلان کر دیا۔ اب وہ اپنے مذہبی ٹچ کی وجہ سے عربوں میں ایک نیک شخصیت کے طور پر مشہور ہو گیا۔اس نے جذباتی نوجوانوں کو ساتھ ملایا اور اس ریلوے لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا ، جس کی تکمیل خلافت عثمانیہ کے استحکام اور خوشحالی کی نوید تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان ، جب اپنے ٹیک آف کے قریب تھا ، سی پیک ایک عالمی مواصلاتی رابطے کے طور پر پایہ تکمیل کے قریب تھا توسیاسی انتشار کی وہ لہر اٹھی کہ جس نے سب کچھ ہی مشکوک کرکے رکھ دیا ، مزے کی بات یہ کہ دشمنی سیاستدانوں سے تھی ، بند سی پیک کردیا ، مخالفت سیاسی جماعتوں سے تھی کانٹے ملک میں سرمایہ کاری کے راستوں میں بچھا ڈالے ، جذباتی نوجوانوں کی اخلاقیات کو تباہ کرڈالا، معاشرتی فخر رواداری کو برباد کرکے رکھ دیا ، ملکی معیشت کا وہ جنازہ نکالا کہ آج تک مداوا ممکن نہیں ہو سکا ۔ مسلح افواج نے سینکڑوں افسروں اور نوجوانوں کی قربانی دے کر جن دہشت گردوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا ، انہیں بصد احترام ملک میں لاکر بسایا گیا ،نتیجہ یہ کہ آج بھی ملک میں روز مقتل سجائے جاتے ہیں ، لاشیں گرائی جاتی ہیں ، اور حد تو یہ کہ یہ انتشار پسند، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بھی بن رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایجنٹ اور کون ہوتا ہے ؟اور کیا کرتا ہے ؟ دوسری جانب عالم اسلام خصوصاً پاکستان کا دشمن عالمی دجالی نظام اور اس کا سرخیل امریکہ اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ انتشار پسندوں کا ساتھ دے رہا ہے ، انہیں ہلا شیری دے رہا ہے ، ایسے میں سوال تو پھر وہی ہے کہ ایجنٹ اور کسے کہتے ہیں ، اس کا کام کیا ہوتا ہے ۔ لارنس آف عریبیہ نے برلن بغداد ریلوے تباہ کیا خلافت عثمانیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ، انتشار پسند سی پیک کے دشمن ہیں اور ہر قیمت پر اس کا راستہ روکنے کے درپئے ہیں ، فرق کیا ہے ؟ اشرف بے نے ترکی میں افراتفری پھیلائی ، لارنس آف عریبیہ نے عربوں میں قوم پرستی کا زہر گھولا اور انتشار پیدا کیا ، ترقی کی راہ روکی نتیجہ یہ کہ خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوگیا ۔کیا ایسا نہیں لگتا کہ اب دشمن زیادہ سیانا ہوگیا ہے ، اوردو نہیں ایک ہی کردار سےدونوں کام لے رہا ہے ، لارنس آف عریبیہ کا بھی اور اشرف بے کا بھی ۔ اگر کوئی ذہن رسا رکھتا ہو تو پاکستان کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ان دونوں کی کہانی پڑھی جائے تو بہت سے عقدے حل اور بہت سے ابہامات دور ہو سکتے ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0