سیف اللہ خالد /عریضہ
(گزشتہ سے پیوستہ)
سوال یہ ہے کہ لوٹ مار کا یہ معاہدہ ہے کیا اور پیر تسمہ پا کی طرح قوم کی گردن میں غلامی کا پھندا بن کر اٹک جانے والا یہ سلسلہ شروع کیسے ہوا؟ یہ قصہ 1993کا ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو الیکشن جیت کر برسر اقتدار آئیں ، قوم لوڈ شیڈنگ سے بلک رہی تھی ، اپوزیشن تتے توے پر بیٹھی لوڈ شیڈنگ کو ایشو بناکر نئی نویلی حکومت کا ناک میں دم کئے ہوئے تھی ۔ حکومت نے نئی پاور پالیسی لانے کا اعلان کیا ، جس کی ڈرافٹنگ میں امریکی سیکرٹری برائے توانائی ہیزل اولیئری نے بنیادی کردار ادا کیا، 80 کے قریب امریکی سرمایہ داروں کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے آئی پی پیز کا چورن بیچنے کی کوشش کی ۔ شنید ہے کہ محترمہ ابتدائی طور پر آمادہ نہیں تھیں ، ایسے میں محترمہ کے قریب سمجھے جانے والے ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ شاہد حسن نے بے نظیر بھٹو کو بریفنگ دی کہ’’ اگر یہ معاہدے نہ کئے گئے تو مستقبل میں ملک میں لوڈ شیڈنگ22 گھنٹوں تک پہنچ سکتی ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ورلڈ بینک بھی سامنے آگیا جو اس منصوبے کا اصل ماسٹر مائنڈ تھا لہٰذا پیپلز پارٹی حکومت نے قوم کی ازلی غلامی کا یہ منصوبہ نافذ کردیا اور پی ٹی وی’’ میرے دیس میں بجلی آئی ہے‘‘ کے ترانے گانے لگا۔ آئی پی پیز کے ساتھ یہ معاہدے کس طرح ہوئے ، یہ ایک الگ المناک داستان ہے ۔ اس وقت کے وزیر پانی وبجلی غلام مصطفٰے کھر کی گواہی ہے کہ ’’جب بین الاقوامی کمپنیوں کا وفد بنگلہ دیش اور بھارت کے دورے کے بعد اسلام آباد آیا اور وزارت پانی و بجلی کے حکام سے ایک روزہ مذاکرات کے بعدمعاہدے پر دستخط ہوگئے تو وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا، کھر کام کہنا ہے کہ میں نے وفد کے سربراہ سے پوچھا کہ آپ نے بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان تینوں ممالک کے سرکاری اہلکاروں کے برتاؤ ’میں کیا فرق محسوس کیا؟اس نے کہا اگر آپ برا نہ منائیں تو حقیقت عرض کروں کہ ہم پانچ دن کے لیے ڈھاکہ پہنچے مگر مذاکرات ایک ہفتہ جاری رہے۔ بنگلہ دیشی وفد نے خوب بھاؤ تاؤ کے بعد تین ساڑھے تین سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بھارت کے لیے ایک ہفتہ کی بکنگ کرائی مگر مذاکرات دس دن تک چلے اور بھارتی حکام اڑھائی سینٹ فی یونٹ کے نرخوں پر آمادہ ہوئے۔ جب معاملہ طے پا گیا تو بھارتی وفد کے سربراہ نے کمیشن طلب کرلیا، ہم چکرا گئے کہ اتنے کم نرخ اور پھر بھی کمیشن کا مطالبہ؟ ہم نے لیت و لعل سے کام لیا تو صاف کہا گیا کہ ٹھیک ہے دیگر کئی کمپنیاں معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ مجبوراً ہم نے ڈیمانڈ پوری کی۔ پاکستان کے لیے15روزہ شیڈول ترتیب دیا۔ خیال تھا کہ پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے، لہٰذا سخت سودے بازی ہوگی، مگر ہم پہنچے تو ’ہمیں آرام کے لیے بھیج دیا گیا۔ دوسرے دن مذاکرات کے آغاز میں ہی پوچھا گیا کہ ہمارا کمیشن کتنا ہو گا۔ ہم نے کک بیکس کی یقین دہانی کرائی۔12اعشاریہ 50سینٹ یونٹ ، بعض سے 14اوربعض سے 15سینٹ فی یونٹ نرخ طے کیا اور آج ہی وطن واپس روانہ ہو جائیں گے۔‘‘بے نظیر حکومت کی اس پاور پالیسی کے تحت 17 آئی پی پیز لگائے گئے، جبکہ ایک سرکاری پاور پلانٹ کی نجکاری کی گئی۔ یوں 18 آئی پی پیز سے بجلی کی نجکاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعد میں آنے والی ہر حکومت نے بھی اسی لوٹ مار کو جاری رکھا بلکہ نئی پاور پالیسی کے نام پراپنا حصہ وصول کیا ۔
آئی پی پیز لانچ کرتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تمام منصوبے غیر ملکی سرمایہ کاری سے مکمل ہوں گے ، یہ بھی جھوٹ اور قوم کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا کیونکہ آئی پی پیز کی تعمیر کیلئے پاور پالیسی کے تحت یہ گنجائش فراہم کی گئی کہ 20 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری لا کر آئی پی پیز تعمیر کئے جا سکتے ہیں، جبکہ 80 فیصد رقم حکومت پاکستان کی گارنٹی پر پاکستانی بینک فراہم کریں گے ۔لوٹ مار کی داستاں صرف اتنی ہی نہیں بلکہ تنخواہ دار طبقے اور اب ریڑھی بانوں اور خوانچہ فروشوں کی گردن میں بھی ٹیکس کا پھندہ تنگ کرنے والی حکومتوں کی دریا دلی دیکھیں کہ مفت میں اربوں لوٹنے والی آئی پی پیز مالکان کو انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹیز، سیلز ٹیکس سمیت سب ٹیکسوں میں مکمل استثنیٰ ہی نہیں دیا گیابلکہ رعایتی نرخوں پر بانڈز کے اجراء کی اجازت دی گئی۔ تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر’ ’ویری ایبل کاسٹ‘‘ادا کرنے کے علاوہ ادائیگیوں کو ڈالر کے ایکسچینج ریٹ اور افراط زر سے بھی منسلک کیا گیا۔سی پیک کے تحت لگنے والے منصوبوں میں البتہ ایک بہتری موجود ہے کہ انہیں’بلڈ آپریٹ ٹرانسفر‘، یا’پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ‘کے اصول پر قائم کیا گیا ہے ۔ یہ منصوبے 25 سال تک چینی کمپنیوں اور بینکوں کی ملکیت رہنے کے بعد صوبوں، زیر انتظام علاقوں یا متعلقہ محکموں کی ملکیت میں چلے جائیں گے۔
نواز شریف نے 1994 میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر حکومتی منصوبوں کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ قوم کو بتایا کہ ان کارخانوں کی تنصیب کا مقصد عوام کو وافر بجلی فراہم کرنا نہیں بلکہ کمیشن اور کک بیکس کا حصول ہے لیکن جب موصوف اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی کسی آبی منصوبے پر کام کرنے کے بجائے انہی آئی پی پیز کو ہی ترجیح دی اور مزید آئی پی پیز کولائسنس دے کر اپنا حصہ ڈالا ۔2002 ء میں جنرل مشرف نے مزید 15 نئے آئی پی پیز متعارف کروائے۔ 2006 ء میں جنرل مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز نے 38 مزید آئی پی پیز کو ڈالرز چھاپنے کے لائسنس بانٹے اور یوں آئی پی پیز کی تعداد 68 تک جا پہنچی۔ 2015 ء میں مسلم لیگ نون نے 7 مزید سرمایہ کاروں کو آئی پی پیز کے لائسنس جاری کیے اور تعداد 75 ہو گئی ۔2024ء میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ملک بھر میں ان آئی پی پیز کے علاوہ واپڈا کے اپنے پن بجلی و نیو کلیئر ذرائع کے تحت بجلی بنانے کی گنجائش 38 ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکی ہے لیکن پاکستان کی اس وقت کل ضرورت 23 / 24 ہزار میگا واٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ واپڈا کی پانی کی بجلی صرف 3 روپے 25 پیسے فی یونٹ ہے لیکن ان آئی پی پیز سے جو بجلی واپڈا کو موصول ہوتی ہے اس کی قیمت 80 روپے فی یونٹ ہے۔2013 ء سے 2023 ء تک 10 سالوں میں ان آئی پی پیز کو 18 ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں ہو چکی ہیں جن میں سے خریدی جانے والے بجلی کی مالیت تقریباً 9 ہزار 650 ارب روپے ہے جبکہ پیداواری گنجائش کی مد میں ان آئی پی پیز کو تقریباً 8 ہزار 350 ارب روپے کی ادائیگیاں ڈالرز میں کی جا چکی ہیں۔ جوں ہی ڈالر کی شرح بلند ہوتی ہے، بجلی بھی مہنگی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے مالکان کھربوں روپے کما رہے ہیں جبکہ غریب کے لئے بجلی کے بل موت کا پروانہ بن گئے ہیں۔
( جاری ہے )