تحریر:رافعہ فہیم
پاکستان کی فیشن اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں جہاں اکثر چہرے ایک جیسے لگتے ہیں، وہیں محمد عثمان ملک اپنی الگ پہچان کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اداکاری سے لے کر ماڈلنگ تک، اور اب فیشن کے میدان میں ان کی موجودگی نہ صرف نمایاں ہے بلکہ قابلِ گفتگو بھی۔عثمان ملک کا فیشن سینس محض اسٹائل نہیں، بلکہ ایک بیان ہے۔ وہ جو پہنتے ہیں، اس کے پیچھے سوچ ہوتی ہے کبھی کلچرل ریفرنس، کبھی جدید رحجانات سے جُڑا کوئی نیا تجربہ، اور کبھی بس ایک خاموش بغاوت۔ سادہ لفظوں میں: وہ فیشن کو فالو نہیں کرتے، بلکہ خود فیشن بناتے ہیں۔ان کے حالیہ فوٹو شوٹس اور ریڈ کارپٹ لک نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا۔ انسٹاگرام پر ان کے منفرد کپڑوں، رنگوں کے انتخاب اور خوداعتمادی سے بھرپور کیریج نے مداحوں کو متاثر کیا، جبکہ کچھ ناقدین کو چکرا کر رکھ دیا۔ جہاں ایک طرف نوجوان فینز نے انہیں “پاکستانی ہری اسٹائلز” قرار دیا، وہیں چند روایت پسند صارفین نے ان کے اسٹائل کو “حد سے زیادہ مغربی” کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا۔مگر سوال یہ ہے: کیا فیشن کا مطلب صرف روایتی حدود میں رہنا ہے؟عثمان ملک کے نزدیک نہیں۔ ان کا کہنا ہے:“فیشن میرے لیے صرف ظاہری چیز نہیں، یہ ایک طرزِ اظہار ہے۔ میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی پہنتا ہوں۔ اگر کسی کو وہ پسند نہیں آتا، تو وہ اُن کا نظریہ ہے میرا نہیں۔”فیشن ناقدین کا ماننا ہے کہ عثمان ملک ایک “visual risk-taker” ہیں۔ وہ خطرے لیتے ہیں، وہ غلطیاں بھی کرتے ہیں، مگر وہ کوشش سے نہیں ڈرتے اور شاید یہی اُن کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ ان کی موجودگی اس انڈسٹری میں تازگی کا جھونکا ہے جو اکثر سٹنڈرڈ فیشن اور سیف پلے میں قید نظر آتی ہے۔یقیناً، وہ ہر ایک کے ذوق سے میل نہیں کھاتے، مگر شاید اُن کا مقصد بھی یہی نہیں۔ وہ اپنے انداز سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ “فیشن میں سب کے لیے جگہ ہے روایت پسندوں کے لیے بھی، اور اُن کے لیے بھی جو روایتوں کو نئے رنگ دینا چاہتے ہیں۔”اداکاری کی دنیا میں ان کی پیش رفت جاری ہے، لیکن جو بات انہیں آج کے فیشن منظرنامے میں ممتاز کرتی ہے، وہ ہے ان کی غیر روایتی جرات، خوداعتمادی، اور الگ سوچ۔پاکستانی فیشن کے افق پر اگر کوئی نیا نام روشن ہو رہا ہے، تو وہ بلا شبہ محمد عثمان ملک ہے ایک ایسا چہرہ، جو صرف نظر نہیں آتا، یاد رہ جاتا ہے۔
محمد عثمان ملک کی شوبز انڈسٹری پر بے باک رائے: “
یہ دنیا خوابوں سے زیادہ حقیقت کی کڑی آزمائش ہے”نوجوان اداکار، ماڈل اور گلوکار محمد عثمان ملک، جو مختصر وقت میں پاکستان کے شوبز منظرنامے پر ایک منفرد مقام حاصل کر چکے ہیں، نے حالیہ انٹرویو میں پاکستان کی تفریحی صنعت سے جڑے تلخ و شیریں تجربات اور اپنی ذاتی جدوجہد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ عثمان کا انداز گفتگو نہ صرف نپا تُلا تھا بلکہ ایک ایسے نوجوان فنکار کا عکاس بھی تھا جو شہرت کی چکاچوند سے زیادہ فن کے وقار اور سچائی کو اہمیت دیتا ہے۔ایک خواب جو آسان نہ تھا2002 میں اسلام آباد میں پیدا ہونے والے عثمان ملک نے ابتدائی تعلیم کے بعد نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) سے فنی تربیت حاصل کی۔ وہ 2017 میں NCA کے بہترین ماڈل قرار پائے، مگر ان کے بقول یہ سفر عزت، محنت اور انکار کے طویل سلسلے سے گزرا۔“لوگوں کو لگتا ہے کہ ایک دن آپ کی تصویر وائرل ہوتی ہے اور اگلے دن آپ ہیرو بن جاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس شعبے میں اپنا مقام بنانے کے لیے خود کو بار بار ثابت کرنا پڑتا ہے، اور اکثر خاموشی سے مسترد ہوتے رہنا ہی اصل تربیت بنتی ہے۔”انڈسٹری کے اندرونی تضاداتعثمان ملک نے پاکستانی شوبز انڈسٹری کو خوبصورتی اور موقعوں کی دنیا قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ یہاں میرٹ سے زیادہ تعلقات، ظاہری شخصیت، اور بعض اوقات اصولوں سے سمجھوتہ، فیصلے بدلنے کا سبب بن جاتے ہیں۔“میرے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ تھی کہ اپنی سچائی کے ساتھ کھڑا رہوں۔ میں نے خود کو کبھی کسی کے معیار پر نہیں ڈھالا۔ اور یہی بات بعض اوقات میرے خلاف گئی۔ لیکن آج میں اسی کی بدولت پہچانا جاتا ہوں۔”اداکاری سے موسیقی تک: ایک ہمہ جہت فنکارعثمان نہ صرف ایک کامیاب ماڈل اور اداکار ہیں بلکہ موسیقی کے میدان میں بھی اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ ان کے گانے “A Fake Friend” اور “Taare” نہ صرف نوجوانوں میں مقبول ہوئے بلکہ ایک خاص جذباتی سطح پر سامعین کو چھو گئے۔“میرے گانے میرے دل کی آواز ہیں۔ جب الفاظ ساتھ نہیں دیتے، موسیقی سب کچھ کہہ جاتی ہے۔”نوجوان فنکاروں کے لیے پیغامعثمان نے شوبز میں آنے کے خواہشمند نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ شہرت کے پیچھے نہیں بلکہ فن کی سچائی کے پیچھے بھاگیں۔“کامیابی وقتی ہو سکتی ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپ کو رات کو نیند آئے اس یقین کے ساتھ کہ آپ نے اپنی پہچان بیچے بغیر کچھ حاصل کیا ہے۔”نظریہ، مستقبل اور امیدعثمان ملک کا فن، فیشن اور گفتگو کا انداز ایک نئے پاکستان کی علامت ہے—جہاں نوجوان اپنی پہچان خود تخلیق کرتے ہیں، اور معاشرتی سانچوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں پختگی بھی تھی اور عزم بھی۔“شوبز میں ایک خاموش انقلاب آ رہا ہے۔ نئے فنکار صرف کردار نہیں، نظریات لے کر آ رہے ہیں۔ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔”محمد عثمان ملک آج اس نسل کی آواز ہیں جو خواب دیکھنے سے ڈرتی نہیں، اور حقیقت کا سامنا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ ان کی جدوجہد، صرف ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ اس پاکستان کی تصویر ہے جہاں فن، سچائی، اور استقامت نئی روایتیں رقم کر رہے ہیں۔