جرمنی میں سویمنگ کا بڑا شاندار کلچر ہے یہاں کے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بڑے بڑے سوئمنگ سینٹرز بنے ہوئے ہیں راہ چلتے ہوئے اچانک کسی نیلی دیوار پر نظر پڑتی ہے آنکھ اٹھا کر دیکھیے تو فن تعمیر کا شاہکار نیلے پانی کا محل نظر آتا ہے آبی محل پر نظر پڑتے ہی خون میں مچھلیاں دوڑنے لگتی ہیں پاؤں تیرنے کے لیے تھرک اٹھتے ہیں سویمنگ سینٹر داخل ہو کر دیکھیے تو یہاں ہر عمر کے لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا اپنے فن میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ننھے منے بچوں سے لیکر بڑے بزرگ امیر غریب ہر طبقے کے لوگ نظر آتے ہیں سویمنگ کسٹیوم میں بچے تو فرشتوں کی طرح لگتے ہیں نیلے پانی کا محل بچوں کے قہقہوں سے ہمہ وقت گونجتا رہتا ہے تو یہ محل کسی مقدس عمارت کی طرح پر شکوہ نظر آتی ہے بڑے بزرگ اپنے تجربے کے مطابق اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
بنیادی طور سویمنگ سینٹر یہاں کی درسگاہیں ہیں جہاں لوگ سماجی میل جول اور جسمانی صحت، ذہنی سکون کو بہتر بنانے آتے ہیںایک دن ایک دوست سے جو بڑے عرصے جرمنی میں مقیم ہیں پوچھا سویمنگ سینٹرز میں اکثر جن بچوں پہ نظر پڑتی ہے وہ اپنے بھاری وزن، دراز زبان کی وجہ سے مقامی نہیں لگتے بلکہ کسی اور ملک کے کھاتے پیتے گھرانوں کے بگڑے نواب زادے لگتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے یہاں کی نئی نسل بگڑ رہی ہے یا بڑے بزرگ بچوں کی مناسب دیکھ بھال کرنے میں غفلت برت رہے ہیں دوست نے میری باریک بینی اور گہرے مشاہدے کی داد دیتے ہوئے کہا آپ کا اندازہ ٹھیک ہے ان میں اکثر بچے دوسرے ملکوں کے امیر گھرانوں کے بگڑے نوابزادے ہی ہیں مقامی لوگ شادی نہیں کرتے نہ بچے پیدا کرنے کی زمہ داری آٹھاتے ہیں وہ خود کو اس زمہ داری کے بھاری بھر کم بوجھ کے قابل سمجھتے نہیں سمجھتے اس لیے تنہا رہتے ہیں میری حیرت کی انتہا نہ رہی دل ہی دل میں سوچنے لگا اگر اتنے شاندار لوگ خود کو نئی نسل کو پروان چڑھانے کے قابل نہیں سمجھتے تو ہم کیا بیچتے ہیں دل غمزدہ ہوا ملول لہجے میں دوست سے کہا کہ جرمنوں کی شادی نہ کرنے کی سمجھداری اپنی جگہ مگر ان کو اس بات پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کہ ان کی نسل کی معدومیت انسانیت پر ظلم ہے۔
سوئمنگ سینٹرز سماجی درسگاہیں
مناظر: 940 | 18 Aug 2025
