وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو ہارڈ سٹیٹ ہوناچاہئے ،‘‘ سوال یہ نہیں کہ ’’ چاہئے ‘‘ کا لفظ، خواہش، تجویز یا نرم مطالبے کے لئے استعمال ہوتاہے، وزیر اعظم ملک کا سب سے با اختیار عہدہ ہے،وہ کس سے اپنی خواہش کا اظہار کررہے ہیں؟کسے تجویز دے رہے ہیں ؟ کس سے مطالبہ کر رہے ہیں ؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیوں ؟ پاکستان ہارڈ سٹیٹ کیوں نہیں ہے ؟ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر کوئی ملک قائم نہیں رہ سکتا ، جب تک وہ ہارڈ سٹیٹ نہ ہو ۔ شب و روز کا تماشہ یہ ثابت کرنے کوکافی ہے کہ اشیائے خو رونوش کی کارٹلائزیشن سے لے کر ملکی سلامتی کے معاملات تک حکومت دکھائی ہی نہیں دے رہی ، ہارڈ یا سافٹ کا تو سوال ہی بعد میں ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں قانون سے بالا تر کارٹلز شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے،حکومت وریاست کو بدنام کرکے اپنے خزانے بھرتے ہیں اور حکام صرف ایک مذمتی بیان پر اکتفا کرتے ہیں ، اور بس۔ اربوں کی ناقص گندم اس وقت درآمدکر لی جاتی ہے ، جب ملک کی اپنی فصل مارکیٹ میں بس آنے ہی والی ہوتی ہے ۔ اردوں کی چینی اس وقت برآمد کردی جاتی جب ملک خود بحران کا شکار ہے ،اور چینی کی قیمت مہنگائی کی شرح کو بڑھاکر حکومت کی ناکامی کا اعلان کررہی ہوتی ہے ، اور پھر اوپر سے برآمدکنندگان اربوں کی سبسڈی بھی ڈکارجاتے ہیں ۔ تماشہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ چند ہفتے نہیں گزرتے کہ چینی کی قلت اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرکے وہی چینی درآمد کرنے کا دھندا شروع کردیا جاتا ہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ، کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، حکومت لاپتہ ہے ،کیوں ؟ کہ کارٹل کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ، انسانیت کا در س دیتے ، عوامی خدمت کے دعووں کی جگالی کرتے، اپوزیشن اورحکومت کے کئی اہم ’’ کردار ‘‘ اس کا حصہ ہیں ،ان ٹچ ایبل ، ہاتھ نہ لگانا ورنہ حکومت جلا کر راکھ ۔ عوام کالانعام کا کیا ہے ،لٹتے رہیں ، پستے رہیں ، مرتے رہیں، ان کی بلا سے ۔ المیہ یہ ہے کہ ’’ہمیں کیا ؟‘‘ کا یہ رویہ ریاست کے وجود ، وقار اور استحکام کو چیلنج کرنے تک آگیا ہے ،جس کے جی میں آتا ہے ، ملک ، افواج اور ملکی سلامتی کے خلاف دشمن کے بیانیہ کا بھونپو بن کر ڈالر کماتا ہے ، اور دھڑلے سے دارالحکومت میں دندناتا پھرتا ہے ، کوئی ہاتھ تو لگا کر دیکھے؟ ، جو جب چاہتا ہے، ریاست کے خلاف جھوٹ گھڑتاہے ، گالی دیتا ہے ، وی لاگ کرتا ہے ، سوشل میڈیا پر پاکستان دشمن عناصر کا دست وبازو بنتا ہے ، مگر پیکا کا وہ قانون ،جس سے کچھ امید تھی کہ روک تھام ہوگی ، نا معلوم کس کنج عافیت میں محو استراحت ہے ، حرکت ہی نہیں کرتا، معلوم کرنا پڑے گا کہ ہے بھی یا ۔۔۔۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بلوچستان میں خون کی ندیاں بہانے والے دہشت گردوں کی فرنٹ آرگنائزیشن ، جس کے خلاف ملکی سلامتی کے اداروں کے پاس ثبوتوں کے ڈھیر لگے ہیں ، جعلی متاثرین کو لے کر اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھی ہے ، عالمی میڈیا میں ملک کوبدنام کر رہی ہے ، بھارتی میڈیا کے ذریعہ سے ریاست کے وجود کا مذاق اڑا رہی ہے ، کوئی پوچھنےو الا ہی نہیں ، کسی کو پرواہ ہی نہیں ،کیوں ؟ صحافت کے لبادے میں دشمن کے راتب پر پلتے ،کچھ عناصر ، قانون دانوں کے مقدس لباس میں چھپے دشمن کے ایجنٹ سرعام ان کا ساتھ دیتے ہیں ، ریاست کے خلاف بیانیہ بناتے اور نعرے بازی کرتے ہیں ، لیکن حکومت، حکومتی ادارے نہ معلوم کہاں ہیں ؟ دیدہ دلیری دیکھیں جن خواتین کو میڈیا پرنام نہاد لاپتہ افراد کی بہنیں، بیٹیاں یا بیوائیں قرار دیا جا رہا ہے، وہ بھی جعلی ہیں ، ان میں اکثر مقامی یونیورسٹیوں کی طالبات ہیں ، جو ریاست کے خرچے پر تعلیم کے بہانے دہشت گردی کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔وہ اسی شہر میں ، اسی شہر کی پولیس اور دیگر اداروں کے سامنے متاثرین کا سوانگ بھر کر ملک کو بدنام کر رہی ہیں ، جہاں بطور طالب علم مقیم ہیں اور سینکڑوں لوگ انہیں جانتے اور پہچانتے ہیں ، مگر قانون حرکت میں نہیں آتا ، کیوں ؟ سلامتی اداروں کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ یہ لڑکیاں صرف احتجاج کو “انسانی المیہ” کا رنگ دینے کے لیے بٹھائی گئی ہیں تاکہ عوامی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں اور ریاست کے خلاف نفرت کا بیانیہ پروان چڑھایا جا سکے۔ ان میں سے ایک جو دھرنے کے پہلے روز سے میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے، خود کو لاپتہ نوجوان کی بہن ظاہر کر رہی ہے، سرکاری اسلام آباد کی سرکاری یونیورسٹی کی طالبہ ہے، جو نہ صرف یونیورسٹی میں قائم دہشت گردوں کے حامی گروپ “سٹوڈنٹس ریزسٹنس فورم” کی فعال رکن ہے۔ باقاعدگی سے ایسے گروپوں میں شریک ہوتی ہے جہاں ریاست مخالف مواد پڑھایا اور پھیلایا جاتا ہے۔ایک دوسری محترمہ اسلام آباد کی ایک انٹر نیشنل یونیورسٹی کی طالبہ ہے، دھرنے میںایک لاپتہ کی بیوہ” کا کردار ادا کرتے ہوئے ،روز پلے کارڈز اٹھائے روتی دکھائی دیتی ہے،، وہ بھی یونیورسٹی میں “سٹوڈنٹس فار فریڈم” نامی ایک مشکوک گروپ کی صدر ہے، جس کا ایجنڈا طلباء کو ریاست مخالف مظاہروں میں شرکت پر اُکسانا ہے۔ ایک تیسرا کردار نجی یونیورسٹی کی طالبہ ہے، دھرنے میں سب سے نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ تحقیقات سے واضح ہے کہ بی وائی سی ایک منظم نیٹ ورک کے تحت کام کر رہی ہے، جس کا مقصد نوجوان نسل کے ذہنوں کو متاثر کر کے انہیں ریاست مخالف ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ان طالبات کو خصوصی وظائف، مالی امداد اور کیریئر کے مواقع کا لالچ دے کر ان سے احتجاجی مہمات میں کام لیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی الزام نہیں،مارے گئےا ور پکڑے جانےو الے کئی دہشت گرد وں کااسی پلیٹ فارم سے ، دہشت گردی تک پہنچنا ثابت ہوچکا ، سوشل میڈیا پر بھی یہی گروہ جعلی بیانیے کو پھیلانے میں مصروف ہے، تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔سوال پھر وہی کہ ’’حکومت کہاں ہے ؟‘‘ ہارڈ نہ سہی سافٹ ہی ہو ، لیکن دکھائی تو دے۔ اگر یونیورسٹیوں میںپھیلتی اس ذہنی آلودگی پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے وقت میں یہ صورتحال ریاست کے لیے حقیقی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے ، نہیں بھولنا چاہئے کہ دشمن نے مشرقی پاکستان میں بھی سرکاری یونیورسٹیوں کو سازش کا مورچہ بنایا تھا ، جس کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت برآمد ہوا ۔یقین نہ آئے تو مکتی باہنی کے بانیوں میں سے ایک کرنل شریف الدین دالیم کی کتاب ’’ پاکستان سے بنگلہ دیش تک ، ان کہی داستاں ‘‘ پڑھ لیں ، اور پھر موجودہ حالات کا تجزیہ کرلیں ، سب آشکار ہوجائے گا ۔
ہارڈ سٹیٹ…… رکاوٹ کیا ہے ؟
مناظر: 619 | 24 Aug 2025
