پیر‬‮   1   ستمبر‬‮   2025
 
 

گہری دھند کے پار

       
مناظر: 600 | 1 Sep 2025  

انسان فطری طور پر متجسس ہے موت گہری دھند کے پار کا ایک دل فریب منظر، جو لوگ اس دنیا میں اپنے ذمہ کا کام مکمل کر لیتے ہیں تو ان کو ایک دلفریب منظر نظر آتا ہے اور وہ دھند کے پار چلے جاتے ہیں ان سے محبت کرنے والے ہاتھ ہلاتے رہ جاتے ہیں کون کہہ سکتا ہے کچھ عرصہ نئے منظر میں رہنے کے بعد انسان کی فطری تجسس اور اکتاہٹ کے سبب اسے پچھلا منظر زیادہ دلفریب لگے بدقسمتی سے وہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں، وقت اپنے تمام دروازے آدمی پر بند کر دیتا ہے جرمنی کے نارتھ ویسٹ فیلیا کے جس دل فریب گاؤں میں میرا قیام ہے لمبے لمبے درختوں کے جھنڈ میں ایک چھوٹا سا مکان، مکان کے دروازے سے چند قدموں کی دوری پر دو گزرگاہیں نکلتی ہے ایک سڑک جھیل کی طرف جاتی ہے جس پہ میرا اکثر آنا جانا رہتا ہے مجھے تیرنا نہیں آتا اور گہرے پانیوں سے شدید خوف اتا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں آ کر جھیل کنارے بیٹھ کر بہتے ہوئے پانی کو دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہےگھر کے دروازے سے جو دوسری سڑک جاتی ہے اس پر کبھی قدم دھرنے کا اتفاق نہیں ہوا ہو سکتا ہے وہ سڑک بھی گھوم پھر کر اسی جھیل پر ختم ہوتی ہوتی ہو کچھ کہا نہیں جا سکتا آج کا دن بھی باقی دنوں کی طرح اگلے ہفتے کی سیر کی منصوبہ بندی میں گزر رہا تھا دوست نے اپنے ہاتھ کی بنی کافی پلائی، کافی کی تلخی جو میں پسند کرتا ہوں اس سے کچھ زیادہ تھی کڑوی کافی پی کر شام کی واک کے لیے جو گھر سے نکلا تو عموماً جھیل کو لیکر دل میں جو لہر اٹھتی تھی وہ آج اس قدر محسوس ہوئی دوست کا ہاتھ پکڑ کر اس سڑک پر چل پڑا جہاں ابھی تک پیر دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ جرمنی آ کر اپنے پہاڑی خد و خال کی وجہ سے کبھی خود کو مقامی لوگوں سے الگ محسوس نہیں کیا نہ کبھی مقامی لوگوں نے احساس دلایا کہ میں کسی اور ستارے سے ادھر آیا ہوں یہاں پر رہتے ہوئے سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہے جرمن زبان نہ آنے پر ایک شرمندگی سی رہتی ہے کوئی بھی نیا تجربہ کرتے ہوئے دل میں یہ خوف اتا ہے کہ ایسی کوئی حماقت نہ کر بیٹھوں جس کی وجہ سے میرے بارے میں یہاں کے لوگوں کا جو گمان ہے وہ غلط ثابت ہو جائے اور میں واقعی خود کو یہاں پر اجنبی محسوس کروں مجھے اجنیت پسند نہیں، دوست کے ساتھ نئی سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کو سلام کرنے کے بعد ان انکھوں کا غور سے جائزہ لے رہا تھا کہ کہیں میں کسی ممنوعہ علاقے میں تو نہیں آیا، یہ جگہ کسی کی زاتی ملکیت تو نہیں یہاں زاتی ملکیت کے بارے میں بڑے حساس قوانین ہیں لیکن لوگوں کی بے نیازی سے اندازہ ہوا کہ یہ جگہ سب کی مشترکہ ملکیت ہے لوگ اپنے کتوں کا ڈور پکڑے ہوئے سگریٹ پینے میں مشغول تھے یا میری طرح کڑوی کافی چکھنے کے بعد والا منہ بنا کر آس پاس کے مناظر کو دیکھ رہے تھے۔ ابھی تھوڑی دور چلے تھے کہ نظر دیوار کے اس طرف پھولوں سے لدے ہوئے ایک چھوٹے سے باغ پر پڑی دوست سے مشاورت کے بعد آب و ہوا بدلنے کے لیے باغ کی سیر کا فیصلہ کیا تھوڑی دیر بعد ہم ایک اونچے دروازے کے سامنے کھڑے تھے جس کی دائیں طرف ایک عظیم الشان عمارت تھی، عمارت کے سامنے ایک بہت بڑی گھنٹی، اور عمارت پر صلیب کا نشان بنا ہوا تھا یقینا یہ کوئی چرچ ہو گا دوست نے کہا ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے دروزے سے اندر داخل ہوئے تو سامنے ایک فن کی شاہکار ایک تختی نظر آئی جس پر کسی کا نام لکھا تھا۔ دوست نے کہا کہ یہ کتبہ ہے ابھی چند قدم ہی کی مسافت طے کی تھی کہ کتبوں کی قطار نظر آئی کتبوں کے آس پاس چھوٹے بڑے پورے اور متنوع رنگوں کے پھول لگے تھے۔ دوست نے میرے کان میں سرگوشی کی کہا میاں ہم بھٹکتے ہوئے کسی قبرستان میں پہنچ گئے واپس چلیے کیا پتہ یہاں قبرستان پر بھی ٹیکس لگتا ہو۔ ہمارے پاس والٹ بھی نہیں ہے ہمیں پہلے یہاں کے قبرستان کے بارے میں قوانین پڑھنے چاہیے۔ میں نے کہا بخت اور ہمت سے کام لیں کچھ نہیں ہوتا اب اتنی دور آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ ان مہان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جنہوں نے اتنا خوبصورت ملک بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، کیا پتا ہمیں بھی ان عظیم روحوں سے کوئی گیان مل جائے دوست نے ناراض ہوتے ہوئے کہا ٹھیک ہے اپ عظیم لوگوں سے باتیں کریں میں سامنے والے بینچ پہ جا کے بیٹھ رہا ہوں، میں نے قبرستان کے سناٹے کو اپنے سینے محسوس کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی پگڈنڈی کے طرف پیش قدمی شروع کر دی پگڈنڈی کے ساتھ قبروں کے کتبے تھے جس پر مرنے والے کا نام، پیشہ اور پیدائش سے موت تک کی تاریخ درج تھی قبروں کی ہیت اس پیشہ ورانہ مہارت سے ترتیب دی گئی تھی کہ رشک آتا تھا جو شخص زندگی میں جس پیشے سے منسلک تھا اس کی قبر کا تھیم اسی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا چلتے چلتے ایک چھوٹی سی ناؤ پر نظر پڑی اس کے ساتھ ایک چپو پر سمندری جہاز کے پائلٹ کی ٹوپی ٹنکی تھی یہ کسی ناخدا کا مزار تھا اس کے ساتھ دوسری قبر پر سیب کا درخت تھا جس پر لال رنگ کے سیب نظر آ رہے تھے ساتھ ہموار جگہ پر سفید رنگ کی بچری زمین پر فرش کی طرح بچھائی گئی تھی اور ایک لکڑی کے کھمبے پرچھوٹے چھوٹے ڈاک گھر بنے ہوئے تھے درمیان میں لکڑی کا بینچ لگا تھا بینچ کے آس پاس زرد اور سفید رنگ کے پھول لگے تھے یہ شاید کسی ڈاک خانے کے آفیسر کی قبر تھی اس سے اگلی قبر کے ایک کتبے پر دو لوگوں کا نام، پیدائش اور سن وفات ساتھ لکھی تھی۔ کتبے کے ساتھ ایک خوبصورت برقی لالٹین ایک کراس کا نشان اور بہت سارے سورج مکھی کے پھول تھے مجھے یہ کتبہ باقی کتبوں سے الگ لگا تھوڑی دیر کی غور و فکر کے بعد پتا چلا یہ دو محبت کرنے والے میاں بیوی کی مشترکہ آرام گاہ تھی جنہوں نے ساری عمر ایک گھر میں گزار دی انہوں نے مرنے کے بعد بھی الگ ہونا گوارہ نہیں کیا یہ میرے لیے حیرت انگیز محبت کی داستان تھی ہمارے ہاں عموما مغربی معاشرے کے خاندانی نظام کے بارے میں اتنا اچھا تصور نہیں پایا جاتا ہمیں لگتا ہے یہاں کے لوگ باہمی محبت اور خاندانی نظام کو شاید زیادہ اہمیت نہیں دیتے یہاں آ کر میری یہ غلط فہمی دور ہوئی جو لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر لگے ہوئے پھولوں کو سوکھنے نہیں دیتے ان کا آپس میں کیسی دل بستگی کا تعلق ہو گا وضاحت کی ضرورت نہیں، میں کسی تقابل میں نہیں پڑتا کہ مشرق و مغرب میں زیادہ وفا شعار اور عظیم لوگ قوم میں پائے جاتے ہیں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں البتہ میرے ذہن کے البم میں ہمارے معاشرے کے قبرستان کی جو دھندلی سی تصویریں ہیں فلش بیک میں وہ آپ کو دکھانا چاہتا ہوں ایک ادیب کی حیثیت سے یہ میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ میں دیانت داری سے آپ کو وہ تصویریں دکھاؤں جو میرے ذہن کے کیمرے میں ہو بہو محفوظ ہیں مجھے اپنے گاؤں کا قبرستان یاد ہے جہاں لوگ اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرنے آتے تھے میت کے ساتھ لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا جو آنکھوں میں مصنوعی آنسو لیے جیسے کوئی قرض چکانے آتے تھے عجیب بے ہنگم شور، بے بنیاد چیخیں، آہیں، سسکیاں، اور امام مسجد کی بلند آواز میں یاد کی ہوئی پرانی تقریر، کچھ حقیقتی رشتہ دار جن کی آنکھوں کی نمی سے ان کا دکھ جھلکتا تھا میت کے ساتھ آتے تھے میت کی تدفین کے بعد عید کے عید رسم نبھانے کے لیے گھر کے کچھ لوگ نئے کپڑے پہن کر دعا کے بہانے چکر لگا جاتے تھے۔ قبروں پر کتبے لگانے کی کوئی روایت ہمارے گاؤں میں موجود نہ تھی وقت کے ساتھ کچھ زمانے کی ستم ظرفی اور کچھ بارشوں کی مہربانی سے قبر کے پتھر سرک کر دوسری قبر میں پیوست ہو جاتے تھے اور قبروں کے آس پاس بے ترتیب گھاس اور بے اور جڑی بوٹیاں سر اٹھاتی تھیں بھولے بھٹکے کبھی کسی عزیز رشتہ دار کے دل میں مرنے والے کے لیے محبت جاگی تو جا کر ان جڑی بوٹیوں کا سر تن سے جدا کر آتا تھا ورنہ پورا سال قبرستان کسی نئی موت کا راستہ تکتا، موت ایک رسم تھی جسے ہم اس طرح نبھاتے تھے۔ آج میں جس قبرستان کے سامنے کھڑا تھا اس میں ایک نظم و ضبط اور گھمبیر خاموشی تھی یہاں میت میں شریک ہونا کوئی کوئی سماجی قرض نہیں تھا جتنے لوگ بھی یہاں آتے تھے وہ اپنے دل کی آواز پر آتے تھے اور مرنے والوں سے اپنی محبت کا اظہار کر کے چلے جاتے تھے ادھر اس قبرستان کو دیکھ کر موت کا خوف کم ہوا اور احساس ہوا اگر حقیقی چاہنے والے ہوں تو موت اتنی بھیانک چیز بھی نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں اپنے حصے کا کام کرنے کے بعد موت زندگی کا عطا کردہ آخری تحفہ ہے جسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے قبرستان میں چلتے چلتے کافی شام ہو گئی تھی مجھے اچانک یاد آیا جس اجنبی راستے سے واپس جانا ہے وہاں بے شمار لوگ ہیں اور لوگوں کے ساتھ کتے ہیں کہیں پڑھا تھا شام کے وقت یہاں کے کتے تو مالک کی بھی نہیں سنتے اپنی کرنی کر جاتے ہیں تو واپسی کے ارادے سے دوست کو آگاہ کیا۔ دوست خاموشی سے مسلسل زمین کو گھور رہے تھے میں نے ان کاندھے پر ہاتھ رکھا اور واپس جانے کی بات رکھی دوست نے میرا ہاتھ پکڑ کر ساتھ بینچ پر بیٹھا دیا اور بولنا شروع کیا دیکھو یار کبھی کبھی زندگی کتنی تلخ ہو جاتی ہے بڑھاپا بے وزن شعر کی طرح بدصورت ہے شاید لوگ اپنے چاہنے والوں کی قبروں کو پھولوں سے اس لیے ڈھانپتے ہیں کہ اس بدصورتی کو چھپانے کا یہ بھی ایک طریقہ ہو بہرحال پھول ہم سے زیادہ وفا شعار ہیں جو مرنے والوں کا ساتھ قبرستان میں بھی نبھاتے ہیں فنا اور بقا کے بارے میں میں زیادہ نہیں جانتا مگر یہاں آ کر لگا کہ فنا ہونا کوئی چیز نہیں سب کچھ زندگی کا تسلسل ہے موت کوئی انجام نہیں بلکہ نیا آغاز ہے یقیں کریں اس قبرستان کو دیکھ کر فوری طور پر مر جانے کا جی چاہتا ہے۔ میں نے اس کو ڈانتے ہوئے کہا خدا آپ کو نوح کی عمر عطا کرے میں اس طرح کی شاعرانہ باتیں سننے کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں گھر جا کے رات کے بھوجن کا بھی انتظام کرنا ہے اتفاق سے آج اتور ہے اور اتوار کو یہاں کے بازار قبرستان کی طرح سنسان ہو جاتے ہیں دوست بھی منہ بنا کر کہا مجھے جرمنی کی یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ اتوار کو مارکیٹ بند رہتی ہے اتوار کا دن ہی تو بازار گردی کے لیے ہوتا ہے۔ جرمن حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کی بات میں حکام بالا تک پہنچا دیتا ہوں فی الحال ہمیں یہاں سے جانا چاہئے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0