اگر آپ کے سر پر چھت ہے اور گھر میں انتظار کرنے والی چار آنکھیں تو آپ دنیا کے خوش نصیب انسان ہیں سر پر چھت ہونے کا احساس ہی اصل سکندری ہے
بے گھری دنیا کے جس کونے میں بھی ہو ایک جیسی دکھ دائک ہوتی ہے بے گھری اپنے ساتھ شناخت کا بحران لیکر آتی ہے بے شناخت ہونے کا دکھ یتیمی جتنا بڑا ہے بے گھری دسمبر میں سائبیریا میں پڑنے والی برف جتنی سرد ہے جو رگوں میں ڈوڑتے پھرتے لہو تک کو جما دیتی ہے یہ انسان کو آس پاس کے ماحول سے لاتعلق کر دیتی ہے بے گھری جرمنی جیسے خوش حال ملک کی ہو یا کسی زبون حال معاشرے کی ایک جتنی وحشت رکھتی ہے
ڈورٹمنڈ کے ٹرین اسٹیشن پر اترتے ہی جس چیخ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کی وہ ایک نشے میں دھت بے گھر کے گلے سے نکلنے والی فریاد تھی وہ لڑکھڑاتا خالی بینچ کی طرف محو سفر تھا ہاتھ میں بہت ساری خالی بوتلیں تھیں عمر کوئی پچیس سے تیس سال کے درمیان، چہرہ گہرا زردی مائل جو کبھی سرخ و سفید رہا ہو گا جھاڑو کی طرح اکڑے ہوئے بال، آنکھیں لال جیسے کسی نے خون سے دیوار پر نقطہ بنا دیا ہو ٹرین سے کیمرے کا لیز صاف کرتے ہوئے اتر رہا تھا تو میری نظر اس عجیب شخص پر پڑی میں حیران پریشان اسے دیکھنے لگا تو کسی نے اچانک میرے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا میں نے فوراً جھنجھلا کر گردن موڑ کر دیکھنے کی کوشش کی تو ایک بجلی کے کھمبے جتنا لمبا شخص سگریٹ کا کش لگاتا گنگناتا تیزی سے گزر گیا میں نے ہچکچاہٹ سے جوتے صاف کیے اور تھوڑا پیچھے ہٹ کر اسٹیشن کی دیوار سے لگ کر چاروں اطراف کا باریک بینی سے جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں تو بڑی تعداد میں بھکاری تھے سب ایک جیسے زبون حال، ایک جیسے حلیے میں کچھ نے بوتلوں کا مالا بنا کر گلے میں پہنا ہوا تھا تو کوئی دھاگے کی مدد سے ان کو ساتھ گھسیٹ کر چل رہا تھا عجیب صورت حال تھی ایک منٹ کے لیے وہم لگا کہ شاید میں غلطی سے فیض آباد میٹرو اسٹیشن پر اتر آیا ہوں یا کوئی خواب دیکھ رہا ہوں جس طرح بھکاری فیض آباد کے میٹرو اسٹیشن کی سیڑھیوں پر دامن گیر ہوتے ہیں اسی طرح یہاں بھی نظر آتے ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ یہ آپ کے کان میں اپنے جھوٹے دکھوں کا زہر نہیں انڈیلتے، بازو پکڑ کر مدد نہیں مانگتے بلکہ ڈسٹ بین سے خالی بوتلیں یا کھانے کی چیزیں اٹھاتے ہیں اور سر جھکا کر کسی بینچ یا دیوار کی طرف منہ کر کے کھانے لگ جاتے ہیں
میرے زہن میں جرمنی آنے سے پہلے یہاں کے بارے میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں تھا یہ میرے لیے زیادہ تکلیف دہ بات تھی کہ اتنے امیر ملک میں بھی بے گھری فٹ پاتھ پر نمائش کے لیے رکھ دی گئی ہے میں نے بہت افسردہ لہجے میں اپنے ٹورسٹ گائیڈ سے اس صورت حال کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ پورے جرمنی کا یہی حال ہے ڈورٹمنڈ سے فرینکفرٹ، برلن سے کولون تک ہر بڑے شہر کے ریلوے اسٹیشن کے باہر بینچز پر اس طرح کے لوگ نشے میں دھت نظر آتے ہیں جن کے پاس دنیا میں کچھ نہیں بچا، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آبائی وطن اچھے مستقبل کی امید میں چھوڑ کر آئے تھے ادھر آ کر ذلت اٹھانے پر مجبور ہوئے میرے سوال کے جواب میں اس نے مزید بتایا جرمنی میں بے گھری کی وجہ صرف غربت نہیں ہے، اکثر اوقات یہ ذہنی صحت کی خرابی، خاندانی شکست و ریخت، یا پناہ گزینی کے کٹھن سفر کی کوکھ سے جنم لیتی ہے کچھ لوگ جو اپنے وطن چھوڑ کر یہاں چھت کی تلاش میں آئے تھے وہ یہاں کی سخت زمینی حقیقتوں سے ٹکرا کر بس سڑک پر رہ جاتے گئے جرمنی کا نظام ان کی مدد کرنے کی کوشش تو کرتا ہے مگر جو ایک مرتبہ اپنی شناخت کھو دیتے ہیں اس کے لیے اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونا بہت کٹھن مرحلہ ہے میرے لیے یہ معلومات یقینا پریشان کن تھیں
درحقیقت جو لوگ کامیابی کے چور دروازے تلاش کرتے ہیں زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایسے اجنبی ملکوں کا سفر کرتے ہیں جس کی زبان تک سے واقفیت نہیں رکھتے تو ان کا انجام اسی طرح تاریک ہوتا ہے جو لوگ تیاری کے بغیر اپنا ہنستا بستا گھر تیاگ کر دور دیس خوشحالی کی تمنا میں آتے ہیں وہ یہاں آ کر ایک در، ایک کواڑ، ایک چادر، ایک مانوس آہٹ کو ترستے ہیں اور ریلوے اسٹیشن کے کسی بینچ کی نذر ہو جاتے ہیں
آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی حال میں رہتے ہیں اگر آپ کے سر پر چھت ہے اور گھر میں انتظار کرنے والی چار آنکھیں، تو آپ دنیا کے خوش نصیب انسان ہیں
یقین کریں دنیا کے کسی بھی ملک میں اس سے بڑھ کر کوئی خوش حالی نہیں ہے ان خوبصورت آنکھوں کا خیال رکھیں جو آپ کی منتظر رہتی ہیں اور اس چھت کا جو جسم کی عریانی چھپاتی ہے