تحریر:عمرفاروق /آگہی
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے العربیہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے متحدہ عرب امارات سے درخواست کی ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔بعدازاں ترجمان وزیراعظم ہائوس نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا آغاز صرف اسی وقت ہو سکتا جب انڈیا پانچ اگست 2019 کومقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کو واپس نہیں لیتا۔سوال یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات یادیگرعرب ممالک مسئلہ کشمیرکے حوالے سے انڈیاپراثراندازہوسکتے ہیں ؟عرب دنیا ایک کروڑ تین لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے رقبے پر مغرب میں مراکش اور شمال میں متحدہ عرب امارات تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں کے لوگ نسلی طور پر عرب ہیں نہ ہی روانی سے عربی بولتے ہیں۔ لیکن عرب ثقافت کے اثرات کی وجہ سے ان کا شمارعرب دنیا میں ہوتا ہے خلیجی ممالک اور انڈیا کے درمیان تعاون میں گزشتہ چند برسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ توانائی ،ددہشت گردی ،فاعی معاملات میں انڈیا ان ممالک کے ساتھ کئی محاذ پر کام کر رہا ہے۔گزشتہ چندسالوں میں ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی بدولت انڈیا عرب ممالک میں اپنااثرورسوخ بڑھاچکاہے اورہم عرب ممالک تقریبا انڈیاکی جھولی میں پھینک چکے ہیں اس وقت ہندوستان اورعرب ممالک کے جوتعلقات ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ،نریندر مودی نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی میں اہم کرداراداکیاہے۔ دوماہ پہلے گجرات میںایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ 2014 سے ہم نے اسلامی ممالک سعودی عرب، یو اے ای اور بحرین کے ساتھ دوستی کو مضبوط کیا ہے۔ یوگا کو سرکاری طور پر ان ممالک کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ابوظہبی اور بحرین میں ہندوں کے لیے مندر بھی بنائے جا رہے ہیں۔تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ نے اگست 2019 میں ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ ابتدائی طور پرایسا لگتا تھا کہ نریندر مودی کا سیاسی پس منظر جزیرہ نما عرب کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کی راہ میں آڑے آئے گا کیونکہ مودی ہندو قوم پرستی کے زبردست حامی ہیں۔2002 کے گجرات فسادات کے بعد مودی کی بین الاقوامی شبیہ بھی متاثر ہوئی تھی۔ اس فساد میں سینکڑوں مسلمانوں کوماراگیاتھا ۔ لیکن متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب نے مودی کو اس نظر سے نہیں دیکھا۔نریندر مودی نے 2016 اور 2019 میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔اسی طرح 2019 میں بحرین اور 2018 میں عمان، اردن، فلسطینی علاقے اور 2016 میں قطر کا دورہ کیا تھا۔ مودی نے 2015 میں شیخ زید گرینڈ مسجد اور 2018 میں عمان کی سلطان قابوس گرینڈ مسجد کا بھی دورہ کیا۔ نریندر مودی کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اپنے اعلی ترین شہری اعزاز ات سے بھی نوازا ہوا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک میں تقریبا نوے لاکھ انڈین رہائش پذیر ہیں۔ یہ نوے لاکھ ہندوستانیہر سال اربوں ڈالر انڈیا بھیجتے ہیں، 2019میں ان افراد نے چالیس ارب ڈالر اپنے ملک بھیجے تھے۔ یہ رقم گذشتہ برس انڈیا کے ترسیلات زر کا 65 فیصد حصہ تھی۔انڈیا ایک تہائی تیل کی در آمد خلیجی ممالک سے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کی گیس کی ضرورت پورا کرنے میں قطر کا سب سے اہم کردار ہے۔ گلف کوآپریشن کونسل یعنی جی سی سی کے کل چھ ممالک رکن ہیں جن میں سعودی عرب، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین شامل ہیں۔ 2021-2022 میں انڈیا کا جی سی سی ممالک کے ساتھ دو طرفہ کاروبار 154 ارب ڈالر کا تھا۔ یہ انڈیا کی کل برآمد کا 10.4 فیصد اور کل درآمد کا 18 فیصد حصہ ہے۔پچھلے آٹھ سالوں میں وزیر اعظم مودی نے چار بار متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ پہلا دورہ اگست 2015 میں، دوسرا فروری 2018 میں اور تیسرا اگست 2019 میں ہوا۔ مودی نے جون 2022 میں چوتھا دورہ کیا۔ جب مودی نے اگست 2015 میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تو یہ 34 سالوں میں کسی انڈین وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ مودی سے پہلے اندرا گاندھی نے1981میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔پچھلے سال 28 جون کو جب نریندر مودی ابوظہبی کے ہوائی اڈے پر اترے تو عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید پہلے سے ہی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ محمد بن زید کا مودی کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر آنا پروٹوکول کے خلاف تھا اور انھوں نے انڈین وزیراعظم کے لیے اسے توڑ دیا۔نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شیخ محمد بن زاید النہیان کے ساتھ غیر متوقع دوستی ہے۔ 2017 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر مودی حکومت نے محمد بن زید کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا تھا۔اس وقت محمد بن زید عرب امارات کے صدر نہیں تھے بلکہ ابوظہبی کے ولی عہد تھے۔ روایت کے مطابق انڈیا یوم جمہوریہ پر کسی ملک کے وزیر اعظم یا صدر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرتا رہا ہے۔ لیکن النہیان2017 میں یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی کے طور پر آئے تھے۔1970 کی دہائی میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ انڈیا کی دو طرفہ تجارت 18 کروڑ ڈالرتھی لیکن آج یہ 73 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔2021 میں انڈیا یو اے ای کا دوسرا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر تھا اور دونوں کے درمیان تیل کے علاوہ دیگر کاروبار 45 ارب ڈالر کا تھا۔ امریکہ کے بعد انڈیا سب سے زیادہ اشیا کی برآمد متحدہ عرب امارات میں کرتا ہے۔2021-22 میں انڈیا نے یو اے ائی کو 28 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 18 فروری 2022 کوتجارتی معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ کاروبار اور تجارت کو سو ارب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ابو ظہبی نیشنل آئل کمپنی یعنی اے ڈی این او سی نے 2018 میں سات برسوں کے معاہدے کے تحت انڈیا کے پٹرولیم ذخائر بھرنے کی زمہ داری لی تھی۔ اس کے تحت منگلور میں قائم ایک سٹوریج میں 50.860 لاکھ بیرل خام تیل بھرنا تھا۔اسی طرح فروری 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے انڈیا کا دورہ کیا۔ ولی عہد جب دلی کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو وزیراعظم نریندر مودی ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ وزیر اعظم مودی پروٹوکول توڑ کر ایئرپورٹ پہنچے۔ولی عہد اس وقت سعودی عرب کے وزیراعظم بھی نہیں بنے تھے۔ اس دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے دلی کے ایوان صدر میں کہا تھا کہ ہم دونوں بھائی ہیں۔ وزیر اعظم مودی میرے بڑے بھائی ہیں۔ میں ان کا چھوٹا بھائی ہوں اور ان کی تعریف کرتا ہوں۔انھوں نے کہا جزیرہ نما عرب کے ساتھ انڈیا کا رشتہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ تاریخ لکھنے سے بھی پہلے۔ جزیرہ نما عرب اور ہند کا تعلق ہمارے ڈی این اے میں ہے۔امریکہ، چین اور متحدہ عرب امارات کے بعد سعودی عرب انڈیا کا چوتھا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ انڈیا سعودی عرب سے اپنی ضرورت کا 18 فیصد خام تیل اور 22 فیصد ایل پی جی درآمد کرتا ہے۔2021-22 میں سعودی عرب اور انڈیا کے درمیان 44.8 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوئی تھی۔ اس میں سعودی عرب نے انڈیا میں 34 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کی اور 8.76 ارب ڈالر کی درآمد۔ 2021-22 میں انڈیا کے کل کاروبار میں 4.14 حصہ داری سعودی عرب کی رہی۔اے ڈی این او سی اور سعودی عرب کی کمپنی آرامکو کا مہاراشٹرا میں 12 لاکھ بیرل کی ایک ریفائنری بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں 44 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ انڈیا، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور امریکہ نے مل کر I2U2 اتحاد بھی تشکیل دیاہے۔انڈیا،اسرائیل اورعرب ممالک نئے سفرپرگامزن ہوچکے ہیں یہ ایک نئی دنیابسانے جارہے ہیں ، سعودی عرب سمیت دیگرخلیجی ممالک اسرائیل کوتسلیم کرنے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ ابراہم ایکارڈز کے بعد اسرائیل کی عرب دنیا میں بڑھتی قبولیت سے انڈیا کا وہ خوف بھی دور ہو گیا ہے کہ خلیجی ممالک بھڑک جائیں گے۔اس لیے وزیراعظم شہبازشریف نے یہ سارے حالات دیکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات سے درخواست کی ہے،عرب ممالک اگرپاکستان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں توانڈیاکی جان خلاصی مشکل ہوگی ۔اب یہ پاکستان کاامتحان ہے کہ وہ عربوں کے تیل اورتجارت کے کارڈکوکس طرح انڈیاکے خلاف استعمال کرتاہے؟ ہمارے خارجہ ،دفاعی ،تجارتی اورسب سے بڑھ کراسلامی تعلقات کوعرب ممالک کتنی اہمیت دیتے ہیں ؟اورسب سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ عرب امارات وسعودی عرب ہمارے مطالبے پرمسئلہ کشمیرکے حل کے لیے انڈیاسے اپنے تجارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی کی حدتک جا سکتے ہیں ؟