کاشرکے قلم سے
گزشتہ روزصداقت مغل نامی نیشنلسٹ کی ایک ویڈیونظرسے گزری جس میں وہ آزادکشمیرمیں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں الحاق پاکستان کی شرط پرتلملارہاتھا ،اورجن لوگوں نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیاان کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس بلکہ خبث باطن کااظہارکررہاتھا۔سب سے پہلے تویہ دیکھناضروری ہے کہ آزادکشمیرکے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں دس اضلاع میں دس ہزارسے زائدامیدواران نے الیکشن میں حصہ لے کرقوم پرستوں کے ایجنڈے اورنعروں کومستردکردیاہے دوسری بات یہ ہے کہ آزادکشمیرکے عوام نے 31سال بعدہونے والے بلدیاتی الیکشن میں نہایت پرامن طریقے سے ووٹ ڈال کراپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کرکے باشعورہونے کابھی ثبوت دیاہے جس کی وجہ سے قوم پرستوں کے چہروں سے ہوائیاں اڑرہی ہیں اورسوشل میڈیاپرمنفی اورجھوٹاپروپیگنڈہ کرکے اپنے عالمی سرپرستوں کوخوش کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔
جہاں تک صداقت مغل نامی شخص کی بات ہے تواس کاتعلق آزادکشمیرکے خوبصورت علاقے وادی نیلم سے ہے مگرعلاقے والوں کوبھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اس خوبصورت علاقے سے ایسا،،مکروہ کردار،،نکلے گا ۔یہ وہ شخص ہے کہ جوہانگ کانگ ،سنگاپورمیں جواکھیلتاتھا اس نوسربازنے جوئے کی رقم پربھی ایک بڑافراڈکیا اوروہاں سے فرارہوکرواپس پاکستان آیااوراس کی ان ممالک پرانٹری پربھی اب سرخ نشان لگاہواہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ موصوف اپناتعلق جس جماعت جموں کشمیرلبریشن فرنٹ نظریاتی (JKLFN)سے جوڑرہے ہیں تووہ اس جماعت کے اکیلے اورتن تنہارہنماء ہیں آزادکشمیرمیں اس جماعت سے کوئی دوسراشخص بھی وابستہ نہیں ہے ،ان کے گھروالے بھی ان کی جماعت میں شامل نہیں ہیں البتہ بیرون دن شایدایک آدھ ،،مفرور،،ان کے ساتھ وابستہ ہوجوان کے لیے فنانسنگ کرتاہو۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ لوگ جب تک پاکستان کے خلاف بکواس نہ کرلیں انہیں کھاناہضم نہیں ہوتااوربیرون ملک سے ملنے والی رقم کاحساب برابرنہیں ہوتااس لیے یہ ان کے ،،پیٹ،،کامسئلہ ہے ۔
آزادکشمیرمیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کامسئلہ ہویابلدیاتی الیکشن کامعاملہ ہو خودمختار کشمیر کی حامی تنظیموں نے ہمیشہ ان نعروں کی آڑمیں پاکستان اورپاکستانی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا اورآزادکشمیروپاکستانی عوام کے درمیان نفرت کی د یوارکھڑی کرنے کی کوشش کی ،خوبصورت نعروں کی آڑمیںسادہ لوح نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان مخالف جذبات ابھاکرمذموم مقاصدحاصل کرنے کی سازش کی ۔
پاکستان کی افواج آزاد کشمیر میں حکومت آزاد کشمیر کی درخواست پر دفاع آذاد کشمیر کے معاہدے کے تحت موجود ہیں۔ جس کے خلاف نعرے بازی یا ان افواج کی آذاد کشمیر میں موجودگی پر کوئی بھی آذادی پسند یا خودمختاری کے حوالے سے سوالیہ نشان نہیں اٹھا سکتا۔آزادکشمیرکے عوام کے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں کسی بھی جماعت نے دھاندلی اورمداخلت کاالزام نہیں لگایاجس سے واضح ہوتاہے کہ آزادکشمیرکے عوام اوررحکومت اپنے فیصلے خود کررہے ہیں اوراس میں وہ آزادانہ طریقے سے اپنے ووٹ کاحق بھی استعمال کررہے ہیں ۔
حالیہ بلدیاتی الیکشن میں کسی بھی پولنگ سٹیشن پرفوج تعینات نہیں کی گئی ،بلکہ پہلے مرحلے میں وفاقی حکومت نے سیکورٹی فورسسزبھی فراہم نہیں کیں جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آزادکشمیرکتناپرامن خطہ ہے اوریہاں کے عوام کتنے باشعورہیں اس کے مقابلے میں میں مقبوضہ کشمیرمیں جوجعلی الیکشن ہوتے ہیں اس میں نولاکھ فوج کے علاوہ اضافی سیکورٹی دستے تعینات کیے جاتے ہیں تب بھی وہ الیکشن پرامن نہیں ہوتے ۔
ناعاقبت اندیشی کی انتہا دیکھئے آج جولوگ بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے نیشنلسٹ بنے ہوئے ہیں اورپاکستان وافواج پاکستان کے خلاف مہم چلارہے ہیںان کے باپ دادا سے لیکر خاندان کا کوئی نا کوئی فرد آج بھی افواج پاکستان میں خدمات سر انجام دے رہا ہے اور یہی نوجوان پاکستان بھر میں نا صرف آذادی سے گھوم پھر بھی سکتے ہیںبلکہ وہاں جائیداد خرید کر کاروبار کرنے کے علاہ وہاں الیکشن لڑ کر اسمبلی ممبر بن کر حتی کہ وزیراعظم اور صدر پاکستان بھی بن سکتے ہیں۔
یہ سادہ لوح پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان کشمیر کی تاریخ سے اتنے نا واقف ہیں کہ انہیں ہندوستان اور ماضی میں ڈوگرہ راج کے مظالم سے آگاہی ہی حاصل نہیں ہے۔انہیں یہ بھی احساس نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام نے کشمیری عوام کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا ہے اور پاکستانی عوام کشمیریوں کو کھلے دل سے پاکستان بھر میں ہر فورم پر یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں۔پاکستانی تعلیمی نظام سے لیکر سرکاری نوکریوں کے ہر محکمے میں آذاد کشمیر کے شہریوں حتی کے کشمیری مہاجرین تک کا کوٹہ موجود ہے۔
میں یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ آذاد کشمیر کے حکمران حقیقتا آذاد کشمیر کے عوام کی ترجمانی کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں اور آزاد کشمیر میں ترقیاتی منصوبوں میں کھلی کرپشن کرتے ہوئے آذاد کشمیر کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آذاد کشمیر کے بے روزگار نوجوان جنہیں آذاد کشمیر کے اندر رہ کر جب روزگار حاصل نہیں ہوتا تو وہ پراپیگنڈہ کا شکار ہو کر اس کا سارا ملبہ پاکستان کے ساتھ الحاق کو قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالانکہ یہی نوجوان بعد میں پاکستان جا کر کامیاب کاروبار بھی کرتے ہیں اور نوکری بھی پاتے ہیں۔لیکن کچے ذہن کے ساتھ سوشل میڈیا پر بیرون ممالک بیٹھے ہوئے نام نہاد آزادی پسندوں کے جھوٹے نعروں پر مبنی پراپیگنڈہ کا شکار ہو کر اب آذاد کشمیر میں پاکستانی افواج کے ساتھ الجھنے کی ان کوششوں کو کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی کیونکہ پاکستانی فوج کبھی بھی آذاد کشمیر کے عوام کو اپنے زیر تسلط نہیں سمجھتی اور نا ہی پاکستانی قوم کشمیر کو اپنی جاگیر یا کشمیریوں کو اپنا اسیر یا غلام سمجھتی ہے۔
آج جب ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں دن بدن اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے آذاد کشمیر کو ہڑپنے کی سازشیں رچا رہا ہے جس کا بارہا وہ ذکر کر چکا ہے۔تو یقینا ہندوستان کی پالیسی ہی یہی ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام میں تفریق پیدا کرتے ہوئے پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکا کر پاکستانی افواج کے ساتھ الجھا کر عالمی دنیا میں پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو کمزور کرتے ہوئے اپنا غاصبانہ قبضہ مظبوط کرے۔ ہندوستانی ہندوتوا پالیسی کے مطابق سارا کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور وہ آزاد کشمیر پر اپنی غاصبانہ قبضے کی نظریں جمائے ہوئے ہے جسے سردار ابراہیم خان کی قیادت میں لاکھوں کشمیریوں نے جانی و مالی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔
کشمیری سیاستدانوں اور حکمرانوں پر آذادی کے بیس کیمپ کو قائم کرنے کے بنیادی مقصد کی جانب بھی بھرپور توجہ دے کر کشمیریوں کے اصل مشن اور منزل حق خودارادیت کی مہم میں آر پار کے کشمیریوں کو اکھٹا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔جس کے لئے کشمیری قوم کو متحد کرتے ہوئے کشمیری سیاستدانوں کا سب سے پہلے خود ایک پلیٹ فارم پر اتفاق رائے سے کشمیری عوام کے بنیادی حق رائے شماری کے حوالے سے عالی سطح پر مہم چلانا کی زمہ داری عائد ہے جسے آج کے حالات میں عملی جامہ پہنانے ازحد ضروری ہو چکا ہے ۔
یہاں میں یہ بھی زکر کرتا چلوں کہ احساس محرومی بے روزگاری اور کم سوشل سرگرمیوں کی وجہ سے آزاد کشمیر میں نوجوان سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جس میں انہیں اچھے برے اور کشمیر کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کی آگاہی نا ہونے کی وجہ سے سازشی عناصر بیرون ممالک سے جلد ہی ان نوجوانوں کو اپنے سازشی جال میں پھنسا کر مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں۔
حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کو کشمیری نوجوانوں کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے انہیں کار آمد باروزگار شہری بنانے کے لئے نئے منصوبوں پر کام شروع کر دینا چاہیے تا کہ معاشرے میں تفریق کا ماحول پیدا کرنے والے عناصر ناکام ہو سکیں اور نوجوان طبقے کو آگاہی اور احساس ہو سکے کہ انکی حکومت اور حکمران کو عوام کے حقوق کے محافظ اور انکا درد رکھتے ہیں۔