سیف اللہ خالد نے کرسی پر پہلو بدلا اور سوچنے لگے جیسے کچھ ایڈٹ کررہے ہوں، میری نظریں سیف اللہ کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں اور خواہش اور کوشش تھی کہ سیف اللہ کھل کر بات کریں، جیسے وہ کرتے ہیں،سکوت کے یہ لمحات مختصر ہی رہے، سیف اللہ خالد نے ہنکارہ بھرا اور کہا ’’ عام افغان ہمارا احسان مند ہے وہ ہماری قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتا ، مانتا ہے کہ روس کے ساتھ جنگ میں پاکستان ان کی پشت پر اور پاکستانی ان کے ساتھ محاذوں پرتھے، انہوں نے پاکستانی شہد اء کی لہو میں لتھڑی لاشیں اور گھائل زخمی مجاہدوں کو اٹھایا ہے، رب ہی جانتا ہے کہ کتنے پاکستانی مجاہدوں نے افغان مجاہدین کے زانو پر سر رکھے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کی اور جانے کتنے افغان مجاہد تھے، جنہوں نے پاکستانی بھائیوں کی گود میں آخری ہچکی لی، وہ کہتے ہیں آپ چار نسلوں کے میزبان ہیں، ہماری دونسلیں تو پلی بڑھی ہی پاکستان میں ہیں اور اتنی اچھی پشتو ،دری یافارسی نہیں بول سکتیں جتنی اردو بول لیتی ہیں ،میں نام نہیں لوں گا اور آپ اصرار نہیں کریں گے، موجودہ افغان حکومت کے ایک وزیر کی تو مجھ سے بھی اچھی اردو ہے ،وہ آج بھی برنس روڈکی بریانی ،سجی اور گولاکباب نہیں بھولا ۔۔۔لیکن مسئلہ ان غلط فہمیوں کا ہے جن کے حل کی راہ میں ’’مزاج ‘‘ بھی رکاوٹ ہے ‘‘ سیف اللہ خالد ملک کے سینئر صحافیوں میںسے ہیں اور ان گنتی کے چند صحافیوں میں سے ہیں، جنہوںنے افغانستان کے لئے صرف قلمی جہاد ہی نہیں کیا ،سیف اللہ خالد کا مرحوم جنرل حمید گل سے تعلق نہایت قریبی تھا، اسی تعلق نے ان کے افغانستان میں مضبوط رابطے بنائے اور بڑھائے۔ وہ اس وقت بھی افغانستان جاتے رہے ہیں، جب ویزے کی حاجت نہ ہوتی تھی اور اب بھی ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے جب ویزے کی شرط ضروری ہوچکی ہے۔ میری ان سے ملاقات اسی کابل یاترا کے حوالے سے تھی جو حال ہی میں کرکے آئے ہیں ۔ہماری بات دونوں ممالک کے تعلقات پر ہورہی تھی، میں نے کہا ’’سیف بھائی! رکاوٹ جو بھی ہو اسے دور ہونا چاہئے جب ہمارے افغان بھائیوں پر مشکل وقت تھا تو کیا ہم نے کسی رکاوٹ کو رکاوٹ سمجھا ؟ میں 80ء کی دہائی کے آخر میں کالج کا طالب علم تھا اور ان نوجوانوں میں سے تھا جو کالجوں ، یونیورسٹیوں اور چوک چوراہوں کی جہاد کانفرنسوں، جہاد نمائشوں کے انتظام کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ جہاد افغانستان فنڈز کی رسیدیں لئے ایک ایک دکان والے کے پاس جاتے تھے پھرحکمتیار ، استادسیاف، مجددی ،مولوی یونس خالص کون سی افغان جہادی جماعت تھی جس کا دفتر پشاور میں نہ تھا۔کھلا آنا جانا ہوا کرتا تھا ۔ہماری سوسائٹی نے انہیں جذب کیا۔رشتے ہوئے ۔ان کی نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ باوجود اس کے کہ افغانستان کی 44سالہ بدامنی نے ہمیں 83ہزار جنازے، معیشت کو150ارب ڈالر کا خسارہ دیا،ہم آج بھی انہیں بھائی سمجھتے ہیں، ان دنوں بھی اسلام آباد میں دوسری بڑی زبان فارسی ہے ،یقین نہ آئے تو میٹرو بس میں سفر کر لیجئے آٹھ دس افغانی دکھائی دے ہی جائیں گے۔ ایران کو دیکھیںنہ ذرا اگست 2021ء سے اب تک چھ لاکھ افغانوں کو اپنے ملک سے نکال چکا ہے اور ہمارے یہاں ان کے بڑ ے بڑے کاروبار ہیں روزگار ہیں لیکن اس کے باوجود آج کی بدامنی پر ہمارے بچے سوال کرتے ہیں کہ ہم نے اس افغانستان کے لئے اپنے آپ کو دہشت گردی کا ہدف بنایا؟‘‘ میری جذباتی تمہید پرسیف اللہ خالد نے کہا انہیں بھی مشرف دور کی امریکہ نواز پالیسی پر بڑی شکائت ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ان شکایات سے آگے بڑھنا ہوگالیکن مسئلہ وہی مزاج اور غلط فہمیوں کا ہے، سیف اللہ خالد نے بتایا کہ گزشتہ دنوں چترال میں پاکستانی چیک پوسٹ پر ٹی ٹی پی کے حملے کے بعد طورخم بارڈر کی بندش سے افغان حکومت پر خاصادباؤ پڑا انہوں نے چترال سے متصل نورستان کے گورنر سے بازپرس بھی کی ہے کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟سیف اللہ خالدکا کہنا اور ماننا ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی پر مکمل کنٹرول نہیں رکھتی یہ بہت نازک مسئلہ ہے اسے نہائت تحمل سے حل کرنا ہوگا ۔ سوال یہ بھی ہے کہ اب اس تحمل کی حد کیا ہو پاک افغان سرحد سے جڑے علاقوں میںمسلح افواج پر خودکش حملے، مسلح کارروائیاں معمول بن چکی ہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پپس)نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اور بعد کے حالات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 73فیصد اضافہ ہواہے ،15اگست 2021ء سے اپریل 2023تک ان واقعات میںاموات بھی 138فیصد بڑھی ہیں ہمارے دوست، پڑوسیوں اور بھائیوں سے سوال تو بنتا ہے کہ مزید کتنا تحمل رکھیں ؟خدا نہ کرے کہ پاک افغان سرحد پر پاک فوج کی چوکیوں پر حملے سرحدی جھڑپوں کی طرف نہ جائیں دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف سخت فیصلے نہ کرتے دکھائی دیں ، ایسا ہوگیا تو یقیناتیسرا فریق بغلیں بجاتا ملے گا پاکستان اور افغانستان میں تناؤ اور امن و امان کی ابتر صورتحال کا بنیفشری یہی تیسرا ہے ، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دہائیوں پر مبنی ہیں ،روسی جارحیت سے پہلے دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو سردمہری تھی وہ افغانستان پر روسی یلغار سے کب کی پگھل چکی ، پاکستان کی قربانیوں کے اگرافغان معترف ہیں اور پاکستانیوں کو اپنا محسن بھائی مانتے ہیں تو اب اس کا عملی اظہار ہونا چاہئے ، امن دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، ان دونوں ممالک کے اطراف روس، چین ،بھارت،ایران اور یورپ سے جڑی سابق سوویت یونین کی ریاستیں ہیں، روس کے لئے اب بھی گرم پانیو ں اور پورا سال جہازوں کو لنگراندازکرنے کی سہولت دینی والی گوادر کے لئے بڑی کشش ہے اور چین بھی گوادر کی مدد سے پوری دنیا میں اپنا مال بیچنا اور تیل لانا چاہتا ہے یہ ’’چاہ‘‘ دونوں ممالک کی خوشحال بنا سکتی ہے اور سرد مہری ،فاصلے ’’آہ ‘‘ بھرنے پر مجبوربھی کرسکتی ہے !