سیف اللہ خالد /عریضہ
دنیا بھر میں قومی سلامتی کے معاملات پر سیاست نہیں کی جاتی ، عدلیہ ا ور سول سوسائٹی بھی ریاست کا ساتھ دیتی ہے ، پاکستان میں بھی ایسا ہی رہا ہے ، لیکن جب سے انتشار پسند عنصر لانچ کیا گیا ہے ، سب کچھ تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے ، سب کچھ الٹ گیا ہے ، بدل گیا ہے ۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ملکی سلامتی کےا دارے دہشت گردوں کو پکڑیں اور عدالتوں میں انہیں رسوا کیا جائے ؟ دنیا میں کہیں کوئی مثال ملتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ججز اپنے ہی ملک کے سکیورٹی اداروں کے ہاتھ پائوں باندھ کر انہیں دہشت گردوں کے سامنے بے بس کردیں ۔ کوئی ایک بھی مثال ڈھونڈ لائیں کہ کسی ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا اعلان ہو ، سیاسی جماعتیں ان کی پشتیبان بن جائیں ، یا دہشت گرد تنظیمیں اپنے اعلامیہ تک میں کسی سیاسی جماعت کی حمائت اور تعریف کریں اور وہ اس کی تردید اور لا تعلقی کا اعلان نہ کرے ؟ المیہ ، المیہ مگر یہ ہے کہ وطن عزیز میں ماحول اس قدر مذموم بنادیا گیا ہے ، نفرتوں کی تجارت اس حد تک پھیلا دی گئی ہے کہ ذاتی مفادات کی خاطر سب کچھ روا ہے ، ملک کے خلاف ملک دشمنوں سے مشاورت کی جاتی ہے ، اپنے ہی ملک کے خلاف عالمی اداروں سے مدد مانگی جاتی ہے اور دشمن ملک کے ہر الزام کو زبان فراہم کی جاتی ہے۔ امریکہ میں 9/11کے بعد کسی قانون سازی ، کسی عدالتی حکم کے بغیر 13سو سے زیادہ آپریشن کئے گئے ، جن میں ایک ہزار سے زیادہ امریکی شہری مشکوک ہونے کی بنیاد پر مارے گئے ، انہی ایام میں برطانیہ میں 4سو آپریشن ہوئے ، 3سو سے زیادہ برطانوی شہری مارے گئے ، معاملہ ملکی سلامتی کا تھا ، لہٰذا کسی عدالت ، کسی وکیل ، کسی نام نہاد انسانی حقوق کے مامے چاچے کو جرات نہیں ہوئی کہ ایک لفظ بھی زبان پر لا سکے ، کھل کر ڈھٹائی کے ساتھ دہشت گردوں کی حمائت ، ان کے خلاف کارروائی کی مزاحمت کا اعلان تو کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ رہا ہو گا ۔
حیرت تو اس پر ہے کہ سب سے زیادہ دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بننے والی جے یو آئی اور ہمیشہ سے مذہبی انتہا پسندی کی مخالف اے این پی بھی انتشار پسندوں کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہیں اور آپریشن کی مزاحمت کا اعلان کر رہی ہیں ۔ بعض ڈیڑھ بالشت کے دانشور اچھل اچھل کر اپنے قد سے بڑی چھلانگیں لگاتے جگالی کر رہے ہیں کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ اس سے پہلے آپریشن ضرب عضب ، راہ نجات اور رد الفساد کے باجود دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوئی ؟ انتشار پسندوں کا سوشل میڈیا ، جسے وہ کود تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ سے آپریٹ ہوتا ہے ، اور امریکیوں کے لئے آپریٹ ہوتا ہے ، اس سوال کو ملکی سلامتی کےا داروں پر الزام کی صورت اچھال رہا ہے ، اپنی دانست میں سوال اٹھا کر کہ یہ لوگ بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ انتشار پسندوں کی تمام تر بدنیتی کے باوجود یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، اسے نظر انداز کرنا قومی جرم ہوگا ، لازم ہے کہ نہ صرف اس سوال کا جواب دیا جائے ، بلکہ ان تمام عناصر اور افراد کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ چلایا جانا چاہئے جو تین بڑے آپریشنز کے بعد بھی دہشت گردی کو ملک میں لانے کا سبب بنے ہیں ،جب ملک دشمنی کے مرتکب ہونے والے مجرموں کو ان کی شناخت ، منصب اور تعصب کا خیال کئے بغیر لٹکایا نہیں جائے گا ، ملک میں امن ہوگا نہ ملک دشمنی کی روائت ختم ہوگی ۔ یہ لوگ ریاست پاکستان کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع اورملاکنڈ وسوات کے شہریوں کے بھی دشمن ہیں ، حکومت کو چاہئے کہ کسی بھی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر دہشت گردوں کی سہولت کاری کرنے اور انہیں واپس لانے والوں کو بے نمقاب کرے تاکہ زخموں سے چور پشتون جان سکیں کہ وہ کون سے راہزن ہیںجو اب ایک بار پھر راہبر کا روپ دھارے انہیں ورغلانے کی کوشش میں ہیں ۔ صرف آپریشن ضرب عضب کو ہی سامنے رکھیں تو اس میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ، ایک لاکھ 10 ہزار خاندانوں کو اپنے بھرے پرے گھر چھوڑ کر نکلنا پڑا ، وہ عفت مآب خواتین جن کے سر کے بال کبھی آسمان نے نہ دیکھے تھے ، انہیں در بدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں ، نازو نعم میں پلنے والے ہیرے جیسی اولادیں خیموں کی ننگی زمین پر سونے پہ مجبور ہوگئیں ، صرف شمالی وزیرستان میں آپریشن کے دوران 15 ہزار مکانات تباہ ہوئے جبکہ صرف میران شاہ اور میرعلی کے بازاروں میں 20 ہزار سے زیادہ دوکانیں اور مارکٹیں بھی مکمل طور زمین بوس ہوگئیں۔34سو دہشت گرد مارے گئے ، ہزاروں فرار ہوگئے ،490فوجی اہلکار شہید ہوئے ، تب جا کر امن قائم ہوا ، کاروبار شروع ، اور زندگی بمشکل اپنی ڈگر پر آنے لگی تھی کہ پہلے پی ٹی ایم کے نام سے ایک پراکسی لانچ کی گئی جس نے دہشت گردوں کے خلاف قائم فوجی چوکیوں پر حملے منظم کئے ،چیکنگ اور تلاشی کے سسٹم کے خلاف رائے عامہ کو منظم کیا تاکہ دہشت گردوں کو نقل وحرکت میں سہولت مل سکے ۔ آن دی ریکارڈ ہے ، کوئی الازم تراشی نہیں کہ کابل میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے افغان طالبان کی مرضی کے خلاف براہ راست ٹی ٹی پی سے تعلقات قائم کئے ، اور ان سے مذاکرات شروع کئے ،آن دی ریکارڈ ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے اس عمل پر اعتراض کیا گیا ۔( جاری ہے )
آپریشن عزم استحکام کی ضرورت کیوں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔1
مناظر: 381 | 27 Jun 2024