google-site-verification: google7ce2e65f3fbee248.html
پیر‬‮   13   اکتوبر‬‮   2025
 
 

وان گاگ کے شہر میں

       
مناظر: 674 | 11 Oct 2025  

ہالینڈ دریا کے اوپر یا نیچے آباد ہے اس کا رقبہ اور جغرافیہ کیا ہے اور اس ملک کی کل آبادی کتنی ہے میں اس بارے میں زیادہ باخبر نہیں ہوں لہذا اپنے پڑھنے والوں کو اس معاملے میں زیادہ معلومات فراہم نہ کرنے پر معافی کا خواستگار ہوں میں نے جب بھی ہالینڈ کے بارے میں پڑھا یا سنا وہ واں گاگ کے قصے تھے لہذا ہالینڈ میرے لیے ایک ایسا شہر جس میں میرے محبوب مصور پیدا ہوئے اپنی شاہکار تصویریں بنائیں کسانوں کے ساتھ رہے ان کے دکھ میں شریک ہوئے ان کے غم کو اپنایا، اپنے فن کی ناقدری پر اداس ہوئے، اپنی تنہائیوں کے کرب کا بوجھ اپنے معصوم دل پر اٹھایا، اپنے لوگوں سے بے حد ناراض ہوئے ایک دن خاموشی سے کینوس کے ساتھ بھری ہوئی پستول اٹھائی کینوس پر آخری تصویر بنائی اور اپنے سینے میں گولی سے چھید کیا اور کہانی ختم ہو گئی لیکن مہاں لوگوں کی کہانی ختم کہاں ہوتی ہے قصہ شروع وہیں سے ہوتا ہے جس کو ہم انجام سمجھتے ہیں واں گاگ کی دنیا سے رخصتی کے بعد ان کی شاہکار تصویریں کو کچھ کاروباری اور قدردان ذہنیت کے لوگوں نے مل جل کر شہر کے درمیان ایک شاندار عمارت کی سفید دیواروں پر نمائش کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا وان گاگ میوزیم وجود میں آیا اب دنیا بھر سے مصوری کے قدر دن واں گاگ کی شاہکار پینٹنگز دیکھنے آتے ہیں اور ان کو خراج عقیدت پیش کر کے چلے جاتے ہیں میرا شمار بھی ان خوش نصیب قدردانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے واں گاگ کی پینٹنگز دیکھنے کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کی جستجو میں نکل پڑے، جرمنی آنے کے بعد جب باقی دنیا کے دروازے ہم پر کھلے تو سب پہلے ہالینڈ دیکھنے کا ارادہ کیا اور اپنے محبوب کے سامنے اپنی وفا کی گواہی لیکر حاضر ہونے کا فیصلہ کیا جس دن ہم ایمسٹرڈیم پہنچے، موسم کے بارے میں جو اندازہ لگا کر گئے تھے موسم اس سے زیادہ سرد مہری کا شکار تھا ہم نے وہ حفاظتی جیکٹ جو رات کی سردی سے بچاؤ کے لیے ساتھ لیکر گئے تھے صبح سویرے ہی پہنے ہوئے دوسرے کورٹ پر چھڑا دیا اور گاندھے کا بوجھ بڑھا دیا گمان یہ تھا کہ ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی واں گاگ میوزیم کی سیاہ تختی پر نظر پڑے گی اور تن بدن میں حرارت پیدا ہو جائے گی اور ہم کوٹ اتار کر رکھ دیں گے مگر یہ کیا یہاں تو ہر طرف کافی، بسکٹ اور وافل کی خوشبو آئیر پورٹ کی آب و ہوا کو مہکا رہی ہیں میں نے اپنے برازیلین ہمسفر دوست سے خراب انگریزی میں پوچھا بھائی ہم غلط آئیر پورٹ پر تو نہیں اترے آئے؟ دور دور تک واں گاگ میوزیم کا نام و نشان نہیں ملتا یہ کونسا ہالینڈ ہے ؟ دوست نے مسکرا کر کہا واں گاگ میوزیم کونسا چارچ ہے جس کے مینار شہر کے ہر کونے سے اپنی ہیبت اور جاہ و جلال ظاہر کرنے کے لیے نظر آئیں گے وہ ایک فن کار کے فن پاروں کی چھوٹی سی نمائش گاہ ہو گی نظر آ جائے گی آئیر پورٹ سے باہر نکلنے دیجیے پہلے ہوٹل جا کر منہ ماتھا درست کریں گے اس کے بعد کے بعد پتا چلا لیں گے کہ میوزیم کہاں واقع ہے ویسے بھی ہمارے انٹری ٹکٹ ٹائم دو بجے ہے ایئرپورٹ سے کافی کا مگ اٹھا کر وافل بسکٹ کا سواد لیتے ہوئے آئیر پورٹ کی عمارت سے باہر نکلے اور ہالینڈ شہر کا واں گاگی نظر سے ناقدانہ جائزہ لیا شہر پہلی نظر میں ہی دل کو بھا گیا بلند و بالا نفیس عمارتیں، صفائی کا انتظام ایسا شاندار کہ سڑک کے کسی بھی کونے میں جائے نماز ڈال کر عبادت بجا لائی جا سکتی ہے قابل رشک جدید ٹرین سسٹم جس میںبیٹھنےسے زیادہ دیکھنےکے لیےدل مچل اٹھتا ہے شیشے کی طرح چمچماتی سڑکیں، بے حد نفیس اور خوش لباس لوگ، شور شرابا نہ ہونے کے برابر اتنی تعداد میں لوگوں کی موجودگی کے باوجود کوئی افرا تفریحی نہیں، کوئی ہلڑ بازی نہیں سب کچھ ایک نظم و ضبط کے ساتھ ٹھیک چل رہا ہے ہم بھی اپنا بیگ اٹھایا ایک بھیڑ کا حصہ بن کر ٹرین میں سوار ہو گئے ٹرین میں رش زیادہ ہونے کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی میں نے کھڑی کی طرف منہ کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ٹرین ہوٹل کی طرف چل پڑی، ٹرین میں زیادہ تر سرگوشیاں انگریزی زبان میں ہو رہی تھیں اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ٹرین میں زیادہ تر پسنجر سیاح ہیں کے ٹرین میں لوگ آپس میں گفتگو ہنسی مذاق میں مصروف تھے اور میں کھڑکی سے باہر کے منظر کو پتھر بنا دیکھ رہا تھا عموما جرمنی کی ٹرینز میں خاموشی ہوتی ہے ٹرین میں بولنے کو بدتمیزی سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں یہ الگ تھا کیونکہ یہاں سب سیاح تھے وہ اپنی تہذیب اپنے گھر چھوڑ آئے تھے ٹرین سے باہر کا منظر دلفریب تھا سڑک پر گاڑیاں ایک نظم کے ساتھ چل رہی تھیں کہیں ٹریفک کا اژدہام نہ تھا، نہ بے مقصد ہارن سے سماعت خراشی ہو رہی تھی گاڑیوں سے زیادہ سائیکل سوار نظر آ رہے تھے سب کچھ ایک پینٹنگ کی طرح لگ رہا تھا جیسے کسی مصور نے نظم و ضبط کے رنگوں سے کینوس پر شہر کی تصویر کھینچ دی ہو اور میں ٹرین سے باہر ایک شاندار کینوس کو دیکھ رہا ہوں

ہوٹل آئیر پورٹ سے زیادہ دور نہ تھا کمرے کی بوکینگ پہلے سے ہو چکی تھی کاؤنٹر سے چابی لی اور جوتوں سمیت ہوٹل کے کمرے میں داخل ہو گئے یہ چار ستارہ ہوٹل اپنی جسامت کے اعتبار سے بہت بڑا نہیں تھا ماڈرن ارکیٹیکچرکی طرز پر بنا یہ ہوٹل باہر سے جتنا خوبصوت تھا اندر اس سے بھی زیادہ پرکشش تھا صفائی ایسی کہ جیسے کوئی جھاڑو لیکر کمرے میں چھپا ہو جیسے ہی گرد کہیں سے آڑ کے آ گئی فورا حجاب سے باہر آیا جھاڑو مار کا اس بلا کا قلع قمع کر دیا کمرے میں داخل ہوئے تو ایک مدھم سی خوشبو نے ہمارا استقبال کیا، بستر پر سفید استری شدہ چادریں سلیقے سے لگی تھیں جس پر یہ سوچ کر بیٹھنے کا دل نہ کرتا تھا کہ کہیں ان کی استری نہ خراب ہو جائے کھڑکی کے پار سے دھندلا سا آئیر پورٹ نظر آتا تھا، ہوٹل سے جلدی منہ ماتھا ٹھیک کر کے نکلے کیونکہ دو دن کے اندر زیادہ سے زیادہ شہر ایکسپلور کرنا تھا چالیس منٹ کی مسافت کے بعد جب وان گاگ میوزیم کا بورڈ دکھائی دیا جان میں جان آئی کہ ہم صحیح ملک میں ہیں جی ہی جی میں بے اختیار رونے کا دل کر رہا تھا مگر آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر شرم کے مارے آنسو پی گئے بس رکی قدم ڈگمگائے دل کی دھڑکنوں کی رفتار اس بس سے تیز ہو رہی گئی جو ہمیں میوزیم کے باہر اتار کر بہت تیزی سے اگلے منزل کی جانب روانہ تھی میں اپنے خواب کی دہلیز پر کھڑا تھا نظریں شکر گزاری سے جھکی ہوئی تھیں تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر دیکھا تو ایک سیاہ بورڈ پر سنہری حروف میں لکھا
وان گاگ میوذیم سورج کی کرنوں سے چمک رہا تھا میرے جذبات اظہار سے باہر ہوئے ہو گئے تھے میں اپنے دل پہ قابو نہپا رہا تھا دل ہی دل میں بول رہا تھا پیارے وِن سنٹ میں نے اپنی وفا نبھائی آخر کار آپ کی بار گاہ تک دھول پھانک کر پہنچ ہی گیا میری محبت قبول کرنا یہ کہ کر میں نے سورج مکھی کا ایک پھول ان کی دہلیز پر رکھا، گھڑی دیکھی تو اندر جانے کے لیے ابھی دو گھنٹے رہتے تھے میں نے کیمرا اٹھایا آس پاس کی عمارتوں کا ہر زاویے سے فوٹو لینا شروع کیا میوزیم کے گرد پروانے کی طرح دو تین چکر لگائے اور انتظار کی گھڑی ختم ہوئی اب میں حقیقی آنکھ سے وہ تصویریں دیکھ سکتا تھا جو موبائل کی سکرین پر دیکھی تھیں
میوزیم کے اندر داخل ہوئے تو رنگوں کی طلسماتی دنیا نے استقبال کیا دیواروں پر تصویریں تھیں اور وان گاگ کے ہاتھوں کی بنی تصویریں تھیں اور ہر طرف بھیڑ ہی بھیڑ تل دھرنے کی جگہ نہیں، دنیا بھر سے قدر دان ان کے فن کو خراج پیش کرنے آئے تھے ہر زائر کی آنکھ میں چمک تھی ہر کوئی اپنی وفا کا عہد نبھا رہا تھا سب کی نظریں دیوروں پر لگے کینوس میں پیوست تھیں ہر تصویر کو اس باریکی سے دیکھنا تو ممکن نہ تھا جس کی وہ متقاضی تھیں بہر حال چلتے چلتے دوسروں کے لیے جگہ چھوڑتے ہوئے جس قدر ممکن ہوا ان تصویروں کو اپنے سینے میں نقش کیا اس وقت کو بھر پور جیا کچھوے کی طرح رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ اس دوران اسپیکر پہ اعلان ہوا کہ میوزیم بند ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے آپ باہر تشریف لے جائیں کچھ تصویریں بھاگتے ہوئے دیکھیں اور باہر آ کر کوری ڈور میں ایک صوفے پر دراز ہو کر بہت دیر اس عمارت کو دیکھتا رہا وقت بھی کیا چیز ہے بائس سال جس خوابکو آنکھوں میں بسائے رکھا اسے گزرنے میں پک جھپکنےجتنی دیر لگی اچھا وقت کتنی جلدی گزر جاتا ہے میوزیم سے باہر نکلے تو شام دھیرے دھیرے اس عمارت کو اپنی آغوش میں لے رہی تھی