اسپین میں سائنس دانوں نے چوہوں میں نینو پارٹیکلز کا استعمال کرتے ہوئے الزائمرز بیماری کی علامات کم کرنے کا دعویٰ کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کو مستقبل میں انسانوں پر بھی استعمال کیا جا سکے گا۔
برہنہ آنکھوں سے نہ دِکھنے والے نینو پارٹیکلز کا قطر 200 نینو میٹرز سے کم (انسانی بال کی چوڑائی کا تقریباً 0.25 فی صد) ہوتا ہے۔
انجیکشن کے ذریعے جسم میں داخل کیے جانے یہ نینو پارٹیکلز دماغ کی حفاظت کرنے والے وافر خلیات اور خون کی شریانوں کے خطے بلڈ-برین بیریئر (ایک رکاوٹ) کی مرمت کرتے ہیں۔
الزائمرز بیماری میں اس رکاوٹ کو نقصان پہنچتا ہے جس سے ایمیلائڈ-بِیٹا نامی زہریلے پروٹین کو دماغ میں جمع ہونے میں مدد ملتی ہے، جس کو بیماری کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔
بارسیلونا کے انسٹیٹیوٹ فار بائیو انجینئرنگ آف کیٹیلونیا کے پروفیسر اور تحقیق کے سربراہ گوسیپے بٹاگلیا نے اس اس تکنیک کو ’زبردست‘ قرار دیا اور ان کا خیال ہے کہ یہ آئندہ چند برسوں میں انسانوں میں بھی استعمال کی جا سکے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق بتاتی ہے کہ جب اس رکاوٹ کی مرمت کر کے دوبارہ فعال کیا جاتا ہے تو دماغ کی مضر پروٹینز کو صاف کرنے کی صلاحیت اور فعلیت بہتر ہو جاتی ہے۔