سرینگر (نیوز ڈیسک ) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے آزادی صحافت کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیری اخبارات کو کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت کے بیانات اور مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال سے متعلق خبریں شائع نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق مودی کی فسطائی حکومت ان احکامات پربھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں کے ذریعے زبردستی عمل درآمد کروارہی ہے۔ روزنامہ کشمیر ریڈر کے مالک حاجی حیات اور رپورٹرز گوہر گیلانی، شوکت اے موٹا، وسیم راجہ، حکیم راشد مقبول، قاضی شبلی، خالد گل، محمد رفیع، اشفاق ریشی اور ثاقب حسین مغل سمیت متعدد کشمیری صحافیوں کو کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت کے بیانات یا مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال سے متعلق کوئی خبر شائع ہونے پر قابض حکام کی طرف سے بار بار طلب کیاجاتا ہے ۔کشمیری صحافیوں بشمول آصف سلطان، منان گلزار ڈار، فہد شاہ اور سجاد گل پہلے ہی ایسے ہی الزامات کے تحت مختلف جیلوں میں غیر قانونی پر قید ہیں ۔قابض انتظامیہ نے رواں سال 21اکتوبرکو کشمیری خاتون صحافی ثنا ارشادمتو کو اہم ترین پلٹزر پرائز ایوارڈوصول کرنے کیلئے نیویارک جانے سے روک دیا تھا۔مودی حکومت کی نئی میڈیا پالیسی جس کااعلان مئی 2020میں کیاگیا تھا،کا مقصد کشمیر میں آزادی صحافت پر قدغن عائد کرنے کا تسلسل ہے ۔جموں و کشمیر کی میڈیا پالیسی 2020کا مقصد میڈیا میں مودی کی ہندوتوا حکومت کے بارے میں ایک بیانیہ تیار کرنا ہے جبکہ آزاد نیوز میڈیا کو سرکاری پالیسی پر عمل کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔نئی میڈیا پالیسی کے بارے میں کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انورادھا بھسین جموال کہتی ہیں کہ اس پالیسی کا مقصد مقبوضہ وادی کشمیرمیں آزادی صحافت کا گلا گھوٹنا اورصحافت کو موسم اور ہول سیل مارکیٹ کے بارے میں خبروں تک محدود کرنے کی ایک کوشش ہے ۔کشمیر میں آزادی صحافت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ کشمیر میں صحافیوں کو مسلسل دھمکیوں اور ایذا رسانی، مسلسل نگرانی، گرفتاریوں اور دہشت گردی کے قوانین کے تحت فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔نئی میڈیا پالیسی کے بعد سے کشمیر میں آزادی صحافت کی حالت انتہائی ابترہے اور اب کوئی صحافی محفوظ نہیں ہے ۔کشمیر میں غیر ملکی صحافیوں کی تعداد بھی تیزی سے کم ہو رہی ہے کیونکہ جون 2020میں متعارف کرائی گئی میڈیا پالیسی میں صحافیوں کے پس منظر کی جانچ پڑتال کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مقبوضہ علاقے پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کیلئے مودی حکومت نے ستمبر 2021میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھاجس میں “غیر مجاز” صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی سے قبل منظوری حاصل کرنے پر مجبور کیا گیاہے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے تین سال سے زائد عرصے بعد بھی کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، صحافیوں، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی رہنماں کو مسلسل نظربندیوں، پوچھ گچھ اورجبری سفری پابندیوں کا سامنا ہے۔
مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے اخبارات کو حریت کانفرنس کے بیانات اور زمینی صورتحال کی کوریج سے روک دیا
مناظر: 967 | 7 Dec 2022