جموں04 ستمبر (نیوز ڈیسک ) برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی)نے بھارت میں تیار کردہ دوائیوں سے ہونے والی اموات کے بارے میں اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گیمبیا اور ازبکستان میں ہونے والی اموات نے بین الاقوامی شہ سرخیوں میں جگہ پائی ہے جس سے بھارت کی دواسازی کی صنعت میں ادویات کے معیارپر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر صحت دنیش ٹھاکر اور ایڈووکیٹ پرشانت ریڈی اپنی کتاب” دی ٹروتھ پِل” میں لکھتے ہیں کہ بھارت میں ڈائیتھیلین گلائکول زہر کا پہلا کیس 1972میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب جنوبی ریاست تامل ناڈو میں 15بچے ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے رام نگر اور متعدد بھارتی ریاستوں میںبڑے پیمانے پر زہریلی ادویات کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔مصنفین کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ڈائیتھیلین گلائکول زہر کی تشخیص کرنا مشکل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کمپنیاں عام طور پرمارکیٹ میں بھیجنے سے پہلے یا تو خام مال یا حتمی فارمولیشن کی جانچ نہیں کرتیں۔بھارتی ریگولیٹرز نے کہا ہے کہ گیمبیا میں بچوں کی اموات سے منسلک کھانسی کے چار شربتوں کی تحقیقات جاری ہے جن کی عالمی ادارہ صحت نے نشاندہی کی تھی۔ اس فرم کا مینوفیکچرنگ لائسنس منسوخ کر دیاگیا ہے جس کی مصنوعات مبینہ طور پر ازبکستان میں ہلاکتوں کا باعث بنیں۔ادارے نے کھانسی کے شربت بنانے والوں کے لیے بھی اپنی مصنوعات کو برآمد کرنے سے پہلے نمونوں کی جانچ کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک پون کمار ہے جس کی عمر 15 ماہ تھی جب اس نے کھانسی کا یہی شربت پیا تھا۔رام نگر کیس میں پولیس کو پانچ لوگوں کے خلاف الزامات درج کرنے میں دو سال لگے، جن میں شربت بیچنے والے کیمسٹ اور ڈیجیٹل ویژن کے تین اہلکار بھی شامل ہیں – مقدمہ مقامی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ضلعی پولیس کے ایک اعلی افسر نے بی بی سی کی انٹرویو کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔رام نگر میں ڈیجیٹل وژن کا مینوفیکچرنگ یونٹ 2020میں چھ ماہ کے لیے بند کر دیا گیا تھا، لیکن عدالت کی طرف سے اسے کام کرنے کی اجازت کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔والدین کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔مرفہ بیوی کہتی ہیں جن کا تین سالہ بیٹا عرفان شربت پینے کے 10دن بعد ہلاک ہوگیا”ہم انصاف چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قاتلوں کو سزا دی جائے”۔ جموں میں ایک سماجی کارکن سکیش کھجوریا نے کہاکہ مینوفیکچرر اور ڈرگ کنٹرول افسران اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔جموں و کشمیر کی ڈرگ کنٹرولر لوتیکا کھجوریا نے بی بی سی کو بتایا کہ کھانسی کے شربت کے جو نمونے رام نگر میں اکٹھے کیے گئے اور چندی گڑھ کی ایک لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے ان میں “34فیصد سے زیادہ ڈائی تھیلین گلائکول تھا۔ مس کھجوریا کے مطابق نمونوں کے نتائج کی تصدیق کولکتہ کی ایک اور لیب نے بھی کی ہے۔ماہر امراض اطفال بھونیت بھارتی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم جس نے اموات کی تحقیقات کی تھی اسی نتیجے پر پہنچی۔گیمبیا اور ازبکستان میں بچوں کی اموات کو بھارتی ساختہ کھانسی کے شربت سے جوڑنے کے بعد رام نگر سانحہ دوبارہ توجہ حاصل کررہاہے اور والدین کو انصاف کا مطالبہ کرنے کا موقع ملا ہے۔بہت سے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں میں مرنے سے پہلے گیمبیا اور ازبکستان کے بچوں میں ظاہر ہونے والی علامات پائی گئی تھیں۔