سرینگر(نیوز ڈیسک ) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کنگن کے علاقے تھون میں قتل عام کے متاثرہ خاندان گزشتہ 33سال سے انصاف کے منتظر ہیں جن کے قریبی عزیز 1990میں آج ہی کے دن بھارتی پیراملٹری بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف)کے اہلکاروں کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔
بی ایس ایف کے اہلکاروں نے ایک مسافر بس پر اندھا دھندفائرنگ کی اور اسے نذرآتش کردیا تھا جس کے نتیجے میں انجینئر طارق الاسلام، غلام محمد وانی، فاروق احمد لون، پرویز احمد اور بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹرسمیت 15افراد شہید اور ایک درجن کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ متاثرہ خاندان ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں جبکہ اس گھنائونے جرم کے مرتکب افراد علاقے میں نافذ کالے قانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA)کی آڑ لے کر اپنی ریاستی دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس بہیمانہ قتل عام کے ایک عینی شاہد نے کے ایم ایس کو بتایا کہ بی ایس ایف کے اہلکاروں نے مسافر بس پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ سونہ مرگ سے کنگن جا رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ بی ایس ایف اہلکاروں نے کنگن کے علاقے تھون میں ہماری بس کو روکا اور بغیر کسی وجہ کے اندھا دھند فائرنگ کی ۔انہوں نے کہا کہ ہم اندھیرے سے فائدہ اٹھاکر وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔