سرینگر(نیوز ڈیسک ) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیرمیںکئی دہائیوں سے جاری تنازعے اوردیگر کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد دنیا کے کسی بھی حصے ے مقابلے میں زیادہ ہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ انکشاف وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں نے اپنے میڈیا انٹرویوز میں کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ تنازعہ کشمیر کے علاوہ معاشی مشکلات اور مقبوضہ علاقے کی موسمی صورتحال لوگوں کے ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہ ہیں۔گورنمنٹ میڈیکل کالج اسلام آباد میں شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر منصور احمد اوروادی کی مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر زویا میر نے مقبوضہ علاقے میں نوجوانوں میں ذہنی صحت کے بارے میں اہم خدشات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں موجودہ نفسیاتی مسائل سماجی تنہائی، اضطراب، اعصابی تنائو اور منشیات کے استعمال جیسے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ڈسٹرکٹ ہسپتال شوپیاں کے ماہر نفسیات ڈاکٹر جاوید احمد نے کہاکہ کشمیریوںکی بڑی تعداد ڈپریشن، پریشانی اور دیگر ذہنی مسائل میں مبتلاہورہی ہے ۔انہوں نے ذہنی عارضوں کا مقابلہ کرنے، اس بارے میںآگاہی پھیلانے اور بروقت علاج کی حوصلہ افزائی کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے دماغی امراض میں مبتلا لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے پر زور دیا۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں ذہنی امراض میں مبتلا کشمیریوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ یہ انکشاف کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی جانب سے منگل کو ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کیا گیاہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی طرف سے کشمیریوںپر ظلم و تشدد، بلاجواز گرفتاریاں اور ماورائے عدالت قتل اورکشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعات نے لوگوں کی نفسیات کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ نریندر مودی کی فرقہ پرست بھارتی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019کو مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور اسے دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کرنے کے غیر قانونی اقدام کے بعد سے جموں وکشمیر میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں جبری گمشدگیوں کے خوفناک اثرات مرتب ہوئے ہیں اور بھارتی فوجیوںنے گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران دس ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست کے دوران لاپتہ کر دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ لاپتہ کیے گئے افراد میں تقریباً ڈھائی ہزار لوگ شادی شدہ تھے جبکہ ان لاپتہ افراد کی مائیں،بیویاں، بیٹیاںاور بہنیںبری طرح متاثر ہوئی ہیں اور وہ کرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔