سرینگر(نیوز ڈیسک ) کشمیری سرکاری ملازمین کی جگہ بھارت کے ہندوتوا کارکنوں کو بھرتی کرنے کے منصوبے کے تحت مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 55مقامی ملازمین کو آزاد پسند سرگرمیوں کی حمایت کرنے کے الزام پر ملازمت سے برطرف کردیاہے۔
اس بات کا اعلان کسی اور نے نہیں بلکہ خود مقبوضہ جموں وکشمیرکے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران کیا۔ ان ملازمین کو2019میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد قابض انتظامیہ نے برطرف کیا اور آزادی پسند ملازمین کی شناخت کے لیے2021میں ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دیاگیا۔ سنہا نے کہا کہ انتظامیہ ان لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنے کو تیار نہیں جو مقبوضہ علاقے میں آزادی پسند سرگرمیوں کے حامی ہیں۔انہوں نے کہاکہ تقریبا 55 سرکاری ملازمین اور کارکنوں کو دہشت گردی(آزادی پسند سرگرمیوں)کو فروغ دینے پر برطرف کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ایسے افرادسے جنہوں نے دہشت گردی (آزادی پسند سرگرمیوں)میں سہولت فراہم کی ہے، نمٹا نہیں جائے گا۔ گورنر سنہا نے کہاکہ2019میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور اسے مرکزکے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کے بعد انتظامیہ آئین کی دفعہ 311(2C)کے تحت سرکاری ملازمین کو برطرف کر رہی ہے۔ ٹریڈ یونینوں اور سیاسی رہنمائوں نے ملازمین کی برطرفی پر قابض انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ان کارروائیوں کوظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان کا مقصد کشمیریوں کو ہراساں کرنا ہے۔