اسلام آباد(نیوز ڈیسک )بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی حکام نے مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کسی بھی قسم کے احتجاج پر پابندی لگا دی ہے اور آئمہ کرائم اور خطباءکو ہدایت کی ہے کہ وہ دینی اجماعات سے خطاب میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ذکر نہ کریں اور نہ ہی فلسطینیوں کے حق میں دعا کریں۔
امریکہ میں قائم خبر رساں ایجنسی ” ایسوسی ایٹڈ پریس“ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ بھارتی حکام نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر اس لیے پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ مظاہرے بھارت مخالف مظاہروں میں تبدیل نہ ہوجائیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام کا یہ اقدام وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیل کا بھی پتہ دیتا ہے جو ایک طویل عرصے تک فلسطینیوں کے حق میں رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں فلسطین کے معاملے پر خاموش رہنا بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔
رپورٹ میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق کی گفتگو کا حوالہ دیا گیاکہ” فلسطین ہمیں بہت عزیز ہے اور ہم وہاں جاری ظلم کے خلاف آ واز اٹھانا چاہتے ہیں لیکن ہم خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔“ میر واعظ کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے انہیں ہر جمعہ کو گھر میں نظر بند رکھا جاتا ہے اور سری نگر کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے اور خطبہ دینے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیری ایک طویل عرصے سے فلسطینیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں اور غزہ میں گزشتہ لڑائی کے دوران بھی انہوں نے اسرائیل مخالف مظاہرے کیے جو اکثر بھارت مخالف مظاہروں میں بدل جاتے اور بھارت کی حکمرانی کے خاتمے کے مطالبات ہوتے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو مساجد سے دور رکھنے اور انہیں اجتماعات سے خطاب سے روکنے کی کارروائی کو نہ صرف اظہار رائے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جاتا ہے بلکہ اسے دینی امور میں مداخلت بھی سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیری عالم دین آغا سید محمد ہادی کو بھی گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے جسکی وجہ سے وہ گزشتہ تین جمعہ نما ز کی ادائیگی اور امامت کیلئے مسجد نہیں جاسکے۔ آغا سید محمد ہادی کا کہنا ہے کہ” پولیس نے انہیں مساجد میں اسرائیلی مظالم کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت میں بات کرنے سے روک رکھا ہے اور وہ صرف فلسطین کے لیے دعا کر سکتے ہیں ، وہ بھی عربی میں مقامی کشمیری زبان میں نہیں۔“