اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) بھارت دریائے چناب کے دائیں کنارے کے معاون دریا مارو صدرپرایک ہزارمیگاواٹ پن بجلی کی صلاحیت رکھنے والے پہلے پن بجلی گھر منصوبے کی تعمیر شروع کر رہا ہے جو کہ1960کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہرین کی عدالت میں پہلے ہی پاکستان کے دریاں پر بنائے جانے والے 330میگاواٹ کے کشن گنگا اور 850میگاواٹ کے ریتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے ڈیزائن پر قانونی جنگ جاری ہے ۔ پاکستان نے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ڈیزائن پر اعتراض کیا ہے جس میں 99ہزار ایکڑ فٹ کا لائیو ڈیم اسٹوریج ہے اور اس سے ایک ہزار میگاواٹ پن بجلی پیداہو گی ۔تفصیلات کے مطابق بھارت نے دریائے چناب کے دائیں کنارے کے معاون دریا مارو صدرپر1000میگاواٹ ہائیڈرو جنریشن پیدا کرنے کی صلاحیت اور99ہزار ایکڑ فٹ تک پانی ذخیرہ کرنے رکھنے والے پہلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام شروع کردیا ہے اوروہ ہوشیاری سے ظاہر کر رہا ہے کہ منصوبے میںصرف 88ہزارایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کای صلاحیت موجود ہے ۔یہ منصوبہ 1960میں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یہ منصوبہ دو سال میں مکمل ہو گا۔ تاہم پاکستان نے پہلے ہی ڈیڑھ سال پہلے پروجیکٹ کے سپل ویز اور فری بورڈ ڈیزائنز پر سندھ طاس معاہدے کے ضمیمہ ای کے پیراگراف 11 کے تحت معاہدے کے آرٹیکل 9 کی درخواست کردی ہے۔ پاکستان کے سندھ طاس کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے صحافیوںکو تصدیق کی کہ پاکستان اس منصوبے پر کافی محتاط ہے اور آرٹیکل 9 کے تحت اس کے ڈیزائن پر پہلے ہی اعتراضات اٹھا چکے ہے اور پی سی آئی ڈبلیو کی سطح پر مذاکرات مارچ 2024سے پہلے بھارت کے ساتھ معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت دوبارہ اعتراض اٹھائیں گے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو آبپاشی کے مقاصد کے لیے پاکستانی دریائوں پر 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس مقصد کے لیے 99ہزارایکڑ فٹ پانی کے ذخائر کے ساتھ پاکل ڈل پروجیکٹ کو مکمل کرنے جا رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کے پاس پاکل ڈل ڈیم میں 99ہزارایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور یہ کہ پانی کی مقدار کو اس کے 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے حق سے منہا کیا جائے۔ لیکن اسپل ویز کے ناقص ڈیزائن کے ساتھ بھارت یہ کہنے کا بہانہ کرنا چاہتا ہے کہ چونکہ اس کی لائیو ذخیرہ کرنے کی گنجائش 88ہزارایکڑ فٹ ہے، اس لیے 88ہزار ایکڑ فٹ کے اس حجم کو پاکستان کے دریائوں پر پانی ذخیرہ کرنے کے حق سے منہا کر لیا جائے۔ اگر آرٹیکل 9 کے تحت مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو پھر پاکستانی فریق سندھ طاس معاہدے میں مذکور دیگر کوششوں کو استعمال کرنا شروع کر دے گا اور اس کے بعد کوئی حل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کے پاس اس خاص منصوبے پر ثالثی عدالت میں جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔