جموں(نیوز ڈیسک ) نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کے لیے اسیر کشمیری آزادی پسندرہنما محمد یاسین ملک کو پھانسی دینے پر تلی ہوئی ہے۔
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک اس وقت نئی دلی کی بدنام زمانہ تہا ڑ جیل میں بند ہیں ۔ انہیں بھارتی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے ) کی خصوصی عدالت نے مئی 2022 میں ایک جھوٹے مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔بھارتی حکام نے یاسین ملک کو 1990 میں سرینگر میں ایک حملے میں بھارتی ائر فورس کے چار اہلکاروں کی ہلاکت اور 1989 میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ سعید کے اغوا سمیت کئی جھوٹے مقدمات میں پھنسایا ہے۔
ایک تازہ ترین پیش رفت میں آج (جمعرات) سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن( سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں ایک عینی شاہد نے دعویٰ کیا کہ یاسین ملک 1990 میں سری نگر میں بھارتی ائر فورس کے اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کا مرکزی شوٹر تھا۔ یہ حملہ25 جنوری 1990 کو سری نگر کے علاقے راولپورہ میں ہوا تھا جس میں ایک سکواڈرن لیڈر سمیت بھارتی ائر فورس کے چار اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارتی ائر فورس کے ایک سابق اہلکار اور استغاثہ کے گواہ راجور اومیشور سنگھ نے یہ دعویٰ سی بی آئی کی عدالت میں اس وقت کیا جب یاسین ملک کو دہلی کی تہاڑ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے جموں میں قائم مذکورہ عدالت میں پیش کیا گیا ۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی کی زیر قیادت بی جے پی رواں برس بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں پھر سے کامیابی کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بی جے پی اس مقصد کے لیے محمد یاسین ملک کو پھانسی بھی دے سکتی ہے۔