نئی دہلی(نیوز ڈیسک ) دہلی کی ایک عدالت نے آج شرجیل امام کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شرجیل امام کی تقاریر اور دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے عوام میں تحریک پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں دہلی میں گڑبڑ ہوئی اور شاید فروری 2020 میں دہلی فسادات پھوٹ پڑنے کی یہی اصل وجہ رہی ہوگی۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج سمیر باچپائی نے اپنے حکم میں کہا کہ شرجیل امام کی تقاریر اتنی طاقتور تھیں کہ یہ ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ذہنوں پر چھاگئیں اور انہیں تخریبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے اکسایا جس کے نتیجے میں آخر کار فسادات برپا ہوئے۔جج نے اپنے حکم میں کہاکہ اگرچہ درخواست گزار نے ہتھیار اٹھانے یا لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے نہیں کہا لیکن اس کی تقریروں اور سرگرمیوں سے عوام متحرک ہوئے اور شہر میں تخریبی سرگرمیاں ہوئیں۔ شاید فسادات پھوٹ پڑنے کی یہی وجہ تھی۔علاوہ ازیں درخواست گزار نے اشتعال انگیز تقاریر اور سوشیل میڈیا کے ذریعے حقائق کا استحصال کیا اور عوام کو اکسایا ۔ عدالت نے کہاکہ درخواست گزار نے اپنی تقریرروں میں اتنے طاقتور الفاظ کا استعمال کیا کہ وہ ایک مخصوص فرقہ کے عوام کے ذہنوں پر چھاگئے اور تخریبی سرگرمیاں انجام دینے کے لئے ان میں اشتعال پیدا ہوا جس کے نتیجے میں آخر کار فسادات برپا ہوئے۔ شرجیل امام کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت بغاوت کے مقدمے کا سامنا ہے۔ شرجیل کے خلاف دہلی کے جامع علاقے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دسمبر 2019میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا مقدمہ دائر کیاگیاتھا۔ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سیٹزن شپ قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تقاریر کی تھیں۔ انہیں 28جنوری 2020کو گرفتار کیاگیاتھا۔ جولائی 2022میں ٹرائل کورٹ نے اس کیس میں ان کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ امام نے اپنی درخواست میں کہاکہ وہ پہلے ہی جیل میں 4سال گزرچکے جبکہ اس مقدمے میں انہیں زیادہ سے زیادہ 7سال کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ لیکن عدالت نے اس کے باوجود ان کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔