سری نگر(نیوز ڈیسک ) بھارتی حکومت نے جموں وکشمیر میں فوج اور پولیس کی مدد سے کشمیریوں کی مسلسل مگرانی اور ان پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے مردم شماری اور گھروں کو جیو ٹیگ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے وی او اے کے مطابق بھارتی فورسز کے اہل کار ہر گھر کو ہندسوں کے ساتھ نشان زد کر رہے ہیں اور خاندان کے تمام افراد کی تفصیلات طلب کرکے گھر کو جیو ٹیگ کرتے ہیں،پولیس کے دیے گئے فارم میں کنبے کے ہر فرد کے نام، عمر، پیشے اور دیگر کوائف درج کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے سوالات بھی شامل کیے گئے ہیں کہ آیا خاندان کا کوئی فرد عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے یا نہیں؟ وہ سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے ساتھ ہوئے کسی مقابلے یا انکانٹر میں کسی طرح ملوث تو نہیں رہا ہے؟
خاندان کے ہر فرد کے غیر ملکی سفر کی تفصیلات بھی فارم میں درج کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اگر خاندان کا کوئی فرد بیرون ملک مقیم ہے تو یہ بتانا بھی لازم ہے کہ وہ وہاں کس مقصد کے تحت قیام پذیر ہے۔گھر میں سی سی ٹی وی لگا ہوا ہے تو اس کے انداراج بھی فارم میں ضروری ہے۔ بھارتی فوج نے اس سے پہلے 2019 میں جموں و کشمیر کے کئی علاقوں اور بالخصوص لائن آف کنٹرول کے قریب واقع آبادیوں میں اس طرح کے سروے یا مردم شماری کا آغاز کیا تھا اور حالیہ ہفتوں میں اس کی یہ سرگرمی پھر مشاہدے میں آرہی ہے۔
بھارت کی طرح جموں و کشمیر میں بھی باقاعدہ مردم شماری شروع نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ملکی سطح پر ہونے والی مردم شماری میں اتنی باریک بینی سے تفصیلات جمع کی جاتی ہیں۔ لیکن پولیس کی شروع کی گئی مردم شماری میں کئی باتیں مختلف ہیں۔اس کے دوران پولیس اور فوج کے اہل کار گھر کے تمام افراد کی تصویریں جمع کرنے، موبائل فون نمبر پوچھنے کے علاوہ عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کے بارے میں بھی سوالات کر رہے ہیں۔
اتنی تفصیلی اسکریننگ کی وجہ سے عام شہریوں میں خدشات پائے جاتے ہیں جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ان کے نزدیک یہ جموں و کشمیر میں مقامی آبادی پر ریاست کی گرفت کو مضبوط تر بنانے کی ایک کوششں ہے جس میں لوگوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی ہورہی ہے اور یہ بھارت کے آئین کے بھی منافی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کی حکمتِ عملی کا ایک اہم جز مسلسل نگرانی کرنا ہے۔
ان کے خیال میں خاص طور پر اگست 2019 میں نئی دہلی کی طرف سے ریاست کی آئینی نیم خود مختاری کو منسوخ کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہ ِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے متنازع اقدامات کے بعد نگرانی کے نظام کو مزید سخت کیا گیا ہے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ پولیس یا فوج کی طرف سے ہونے والے سینسز کے دوران فراہم کردہ نجی انفارمیشن کے غلط ہاتھوں میں جانے کے بارے میں خدشات ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر متعلقہ حکام اپنے کام میں مخلص ہیں تو انہیں ایسا میکنزم اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگوں کے خدشات کا ازالہ ہو۔
سابق وزیر ِ اعلی اور اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے پولیس کی مردم شماری کو مضحکہ خیز اور ذلت آمیز قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا: “میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ پولیس ایسا کس قانون یا اختیار کے تحت کررہی ہے۔ پولیس کے اس عمل نے عام لوگوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔
ایک اور سابق وزیرِ اعلی محبوبہ مفتی کی قیادت میں قائم جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے پولیس کے سروے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ عام کشمیریوں کے موروثی حقوق اور شناخت پر براہِ است وار ہے۔سابق ممبر اسمبلی اور بھارت کی مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی کا کہنا تھا: بے خبر شہری اسے ریاست کی طرف سے ان پر اپنی گرفت مضبوط تر کرنے کی ایک اور کوشش سمجھتے ہیں۔ حکومت کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ ان کے خدشات کو دور کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص کیذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغیر جبرا” حاصل کیے جاتے ہیں تو یہ اس کی رازداری کی کھلی خلاف ورزی ہے اور بھارت کا آئین و قانوناس کی اجازت نہیں دیتے۔