اسلام آباد(نیوز ڈیسک )بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی کے المناک واقعے کو گزرے 33برس ہوگئے لیکن متاثرہ خواتین تاحال انصاف سے محروم ہیں۔بھارتی فوجیوں نے 23 فروری 1991 کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران آٹھ سال کی بچیوں سے لے کر اسی سال تک کی عمر کی 100 کے قریب کشمیری خواتین کو اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا تھا۔
کشمیر میڈیاسروس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ اس گھنائونے جرم میں ملوث بھارتی فوجی آزاد گھوم رہے ہیں، المناک واقعے کی دلخراش یادیں کشمیری عوام کے ذہنوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ جموںوکشمیر میں جنوری 1989 سے اب تک 11ہزار 2سو63 خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوجیوں کو آرمڈفورسز سپیشل فورسز پاورز ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت حاصل بے لگام اختیارات کی وجہ سے مقبوضہ علاقے میں خواتین کی آبروریزی جیسے گھناؤنے جرائم کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کنن پوشپورہ واقعہ نام نہاد بھارتی جمہوریت کے ماتھے پر ایک بدنما دھبہ ہے، بھارت کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد کو دبانے کیلئے خواتین کی آبروریزی کو ایک جنگی آلے کے طور پر استعمال کررہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری کیس کو دوبارہ کھول کر مجرم اہلکاروں کی نشاندہی کرے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لائے۔