عریضہ /سیف اللہ خالد
دودن پہلے پاک ارمی کی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں ڈیجیٹل دہشت گردی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ اس بات پر زور دیا گیا کہ’’ ریاستی اداروں کے خلاف سیاسی مقاصد اور مذموم ڈیجیٹل دہشت گردی کا واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلانااور قومی اداروں خصوصاً مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پھیلانا ہے۔‘‘ ڈیجیٹل دہشت گردی کی نہ تو اصطلاح نئی ہے اور نہ ہی یہ دہشت گردی کوئی نئی چیز ہے ، بلکہ پاکستان دہائیوں سے اس دہشت گردی کو بھگت رہا ہے ، جس کا پہلا بڑا حملہ ازلی دشمن بھارت کی جانب سے 1971 میں سقوط ڈھاکہ کی صورت کیا گیا۔خود بھارت کے اس ڈیجیٹل دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ کے ہتھیار سے پاکستان پر حملہ کیا اور یہ جنگ جیت لی ۔ 1971میں بھارتی دہشت گرد ایجنسی را کے سربراہ ’’ بی رامن ‘‘ نے اپنی کتاب “The Kaoboys of R&AW ” میں لگی لپٹے رکھے بغیراعتراف کیاہے کہ’’ مکتی باہنی کو اسلحہ اور تربیت را نے فراہم کی تھی اور اس وقت کی پاکستانی حکومت کے خلاف نفسیاتی پروپیگنڈا مہم چلاتے ہوئے اس کی فوج کو نشانہ بنا کر اس کا مورال گرایا گیا ، جس میں پاکستان (مشرقی و مغربی) کے اندر سے سیاسی شخصیات اور پریس نے بھی تعاون کیا‘‘ یہ تعاون کرنے والے کون تھے ؟نام اب مخفی نہیں رہے۔ دوسری گواہی بھی بھارت سے ہی دستیاب ہے ۔بھارتی فوج کے میجر جنرل ڈی کے پیلٹ اپنی کتاب The lightning campaingn میں لکھتے ہیں کہ ’’ بھارت کی سقوط ڈھاکہ میں کامیابی میں سب سے زیادہ حصہ ہمارے اس جھوٹے پراپیگنڈے کا تھا ، جس میں ہم نے پاکستانی فوج کے بڑے افسروں سے لے کر عام سپاہی تک پر شرمناک الزامات کی بارش کردی،ان کی تذلیل کی ،انہیں نفرت کی علامت بنادیا جس کا اثر ان کے مورال پر بھی پڑا ، اور وہ اپنی نظروں میں خود ہی شرمندہ ہو کر رہ گئے۔‘‘کیا آج بھی ہی کچھ نہیں دہرایا جارہا ؟ تیسری گواہی بھی بھارت سے ہی ہے ، بھارت کے فیلڈ مارشل’’مانک شا‘‘ سقوط مشرقی پاکستان کے وقت بھارتی فوج کا سربراہ تھا ، 2008میں 94 سال کی عمر میں آنجہانی ہوا ،اس نے کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن بے شمار انٹر ویوز دئے جو آج بھی سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔ ایک انٹریو میں وہ کہتا ہے ۔’’1971میں بھارت اور مکتی باہنی نے پاکستان کے اندر میڈیا میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعہ سے پروپیگنڈہ پھیلایا ،قوم کی نظروں میں ان کی فوج کو بدنام کیا،یہ ہماری جنگی حکمت عملی کااہم ترین حصہ تھا ۔‘‘بھارت کے یہ تینوں شہہ دماغ اپنے جن پاکستانی دوستوں کے ذریعہ سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کااعتراف کر رہے ہیں ، ریاست پاکستان کے یہ غدار ، میر جعفر اورمیر صادق کے وارث کون تھے ؟ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ، یوں تو ان کی اولادوں کا کردار اور رویہ ہی گواہی دینے کو کافی ہے ، لیکن بنگلہ دیش حکومت نے 2013 بھارتی را کے سربراہ بی رامن اور مانک شا کے ہمراہ پاکستان کے ان غداروں کو بھی ایوارڈ دے کر پوری دنیا کو ان کی شناخت کروادی ہے ۔آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے غدار اور بھارت کے یار کون تھے ۔
صرف 1971پر ہی موقوف نہیں ،بعد ازاں یورپی یونین نے بھی انڈین کرانیکلز کے نام سے ایسی ہی پاکستان دشمن ڈیجیٹل دہشت گردی کے ثبوت دنیا کے سامنے پیش کئے، ابھی گزشتہ برس 2023نومبر میں امریکہ میں بھی پاکستان کے خلاف ڈیجیٹل دہشت گردی کی بھارتی سرپرستی میں مہم پکڑی جا چکی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ لمحہ موجودمیں جاری ڈیجیٹل دہشت گردی بھی اسی جنگ کا تسلسل ہے ، جس آغاز 1971میں ہوا اور اعتراف بھارتی جرنیل کر رہے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ 1971 میں شیخ مجیب اور اس کی مکتی باہنی بھارت کے آکہ کار کے طور پر دہشت گردی کی مرتکب تھے ، آج ایک دوسرا کلٹ جسے سیاسی کلنک کہنا زیادہ موزوں ہے ، پاکستان پر حملہ آور ہے اور 1971 کے اسی مردہ بیانیئے کو زندہ کرنے کی کوشش میں ہے، جس کےبارےمیں اس کے معمار کہہ چکے ہیں کہ ’’ انہوں نے میر جعفر کے وارث استعمال کرکے جھوٹ ، گھڑا،اور پھیلایا ‘‘۔تاریخ کے حوالےمعتبر ہیں اور جب گواہی خود دشمن کے سرخیل دے رہے ہوں تو زیادہ بامعنی ہوجاتی ہے،لیکن آج کا کلنک تو خود ہی اپنی حرکتوں سے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی دوروز قبل اسی گروہ کے ایک بوزنے نےاپنے وی لاگ میں اعتراف کیا ہے کہ ’’آزاد کشمیر میں احتجاج اور کرغیزستان میں طلبہ کے مسئلہ پر اس نے اور اس کے ساتھیوں نے جھوٹ بولا ، جھوٹی خبریں پھیلائیں۔‘‘ دوسری جانب مجیب بننے کے شوقین کردار کے ایکس کائونٹ سے ملک دشمنی پر مشتمل ویڈیو نشر ہونے کے بعد خود انتشاری ٹولہ بھی منتشر ہے،جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق بھانت بھانت کی بولیاں بول رہا ہے،اسی افراتفری میں یہ انکشاف بھی کر چکے ہیں کہ ان کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں ۔ علی محمد خان نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ ’’ویڈیو ان کے لیڈر کے اکائونٹ سے ہی جاری ہوئی ہے ، آئندہ نہیں ہوگی ۔‘‘ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں دو ٹوک بات کی اور کہا ہے کہ ’’ ؒخان کا اکائونٹ پارٹی چلا رہی ہے ، جو کچھ بھی نشر ہوتا ہے وہ پارٹی پالیسی ہے ، اور خان کی مرضی سے ہوتا ہے ۔‘‘ اب آتے ہی اس آخری پوائنٹ پر کہ پاکستان کے خلاف ڈیجیٹل دہشت گردی کا یہ بیانیہ آکہاں سے رہا ہے ؟ ایک عرصہ سے ارباب خبر ونظر یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں کسی پروپیگنڈہ کمپنی کے ذریعہ سے یہ ڈیجیٹل دہشت گردی کی جا رہی ہے ، بعض لوگوں نے اس شخص کا نام بھی لیا جو انتشاری کلنک کا سوشل میڈیا امریکہ سے چلا رہا ہے ، لیکن یہ سب مصدقہ نہیں تھا ۔ اب اسی پی ٹی آئی کے اپنے ترجمان رئوف حسن نے کھل کر اعتراف کیا ہے ، اور کہا ہے کہ ’’ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا امریکہ سے آپریٹ ہوتا ہے ، اور وہ لوگ ہماری بات سننے کے پابند نہیں ، ہم ان سے بات کریں گے ، اور یہ ویڈیو ختم کروانے کی کوشش کریں گے ۔‘‘ وہ ویڈیو ابھی تک ہٹائی نہیں گئی ۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ امریکہ سے آزادی کے نام پر قوم کو دھوکہ دے کر اپنا پورا بیا نیہ ہی امریکی لونڈوں لپاڑوں کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ پاکستان میں فسادبپا کرنے والے امریکہ میں بیٹھے ہیں اور یہاں غریب کے بچوں کو مروایا جا رہا ہے کہ ’’ ہم امریکہ سے آزادی لے رہے ہیں ۔ ‘‘
سوال ہمارا حکومت سے ہے ، حکومت کےاداروں سے ہے کہ وہ کہاں ہیں ؟ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگ اب 1971میں وطن سے غداری اور ملک کو دولخت کرنے کے عمل کو قبول کرنے لگے ہیں ، دھمکیاں دے رہے ہیں ، تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ کسی دوسرے کے ایما پر ڈیجیٹل دہشت گردی کر رہے ہیں ، مسلح افواج اس پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں ، حکومت کے کان پرجوں تک کیوں نہیں رینگ رہی ؟
۔۔ بات پہنچی امریکہ تک
مناظر: 630 | 2 Jun 2024