سیف اللہ خالد/ عریضہ
غورسے دیکھیے، پہچان لیجئے، ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں ، جب دلوں میں پوشیدہ منافقت کا رنگ چہروں سے ٹپک پڑتا ہے ، آقا و مولا سیدنا محمد ﷺ کی ریاست مدینہ میں بھی منافقین کی شناخت کا ایک ہی موقع آیا تھا’’غزوہ بنی المصطلق‘‘ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول اوراس کا ٹولہ پہچانا گیا ۔ آج بھی طویل عرصے کے بعد پاکستانیوں کے لئے یہ موقع آیا ہے، عبداللہ بن ابی ابن سلول کے پیروکاروں کو پہچان لیجئے سوشل میڈیا پر سرفنگ کریں ، دیکھیں ڈھونڈیں، اور اپنی یادداشت میں محفوظ کرتے جائیں کہ اس قبیل میں کون کون شامل ہے ، تاکہ مستقبل میں ان کی فکری خباثتوں سے بچنے اور ان کے منبع وماخد کا پتہ چلانے میں دشواری نہ ہو ۔ شناخت اس کی صرف ایک ہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں مجاہدین ختم نبوت کی فقید المثال کامیابی ،تحفظ ختم نبوت پر تمام سیاسی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کے اتحاد واتفاق پر آتش زیر پا ہیں ، یوں سیاپا کر رہے ہیں کہ جیسے ان کی دنیا ہی اجڑ گئی ہو ، اور حقیقتا ً ہوا بھی ایسے ہی ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے چوہوں کا ایک اور چور دروازہ بندکردیا ہے ،سالوں کی سوچ بچار کے بعد قانونی موشگافیوں کی آڑ میں چور دروازہ کھولنے کی امید دم توڑ گئی ہے ، اتنا واویلا اور اتنا ماتم تو ان کا بنتا ہی ہے ۔ ان میں وہ بھی ہیں جو کل تک قاضی فائز عیسی کی عظمت کے گن گاتے تھے ، آج زباں سے آگ اور قلم سے زہر اگل رہے ہیں ، انہیں پہچان لیجئے، جان لیجئے، مستقبل میں ان کے فرمودات کو اسی کے تناظر میں سمجھیں گے تو صورتحال کی تفہیم میں سہولت رہے گی، معلوم ہو سکے گا کہ کونسا بیانیہ کہاں سے لانچ کیا جا رہاہے ۔ رہا یہ کہ شناخت ہوجانےوالے منافقین سے سلوک کیا ہونا چاہئے توجو آقاﷺ نے اپنے عہد کے مناقین سے سلوک کیا وہی ہمیں روا ہے ، یہ اگر عبداللہ بن ابی ابن سلول کے ماننے والے ہیں تو ہم بھی آمنہ کے لعل ،رحمت اللعالمین البنی الخاتم سیدنا محمد ﷺ کے غلام ہیں ، کوئی ایسا کام کیسے کر سکتے ہیں ، جس کا آقاﷺ نے حکم نہ دیا ہو ، یا جسے آقا ﷺ نے پسند نہ فرمایا ہو ۔ ابن سلول کے صاحب ایمان صاحبزادے کو سمجھاتے ہوئے آقا ﷺ نے فرمایا تھا جب تک تمہارے والد میرے ساتھ ہیں میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں گا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاعمر اس منافقوں کے سردار کے ساتھ اعلی اخلاق کا مظاہرہ کیا۔کرنا ہم نے بھی یہی ہے ، لیکن چوکنا رہنا ہے اور ان کے چکر میں نہیں آنا، لہذا ، جان لیجئے ، پہچان لیجئے ، یہ لمحات دوبارہ نہیں آئیں گے ، شدت غم کا لمحہ گزر جانے کے بعد یہ سب پہلے کی طرح منافقت کا لبادا اوڑھ لیں گے تو شناخت مشکل ہوجائے گی ۔
آقا ﷺ محمد کی ختم نبوت ، یا آپ ﷺ کا مقام ومرتبہ ہماری کمزور حمائت کا محتاج نہیں ، خدا کی قسم نہیں ۔ یہ ہماری سعادت ہے ، پاکستانی قوم کی سعادت ہے کہ نبی مکرم ﷺ کے مقام ومرتبہ کا تحفظ ہمارے ذمہ لکھ دیا گیا ، پاکستان ، پاکستانی قوم اور پاکستانی اداروں کو میرے رب نے اس مقصد جلیلہ کے لئے چن لیا کہ اس کے حبیب ﷺکے ناموس اور مقام کا تحفظ ہم کریںگے ۔ وہ نہ چاہے تو ہماری اوقات کیا ہے، ہم وہی ہیں نا بات بات پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے ، ایک ایک روپے کے مفاد پر قسمیں کھانے ، تقسیم درتقسیم کا شکار۔ یہ میرے رب کا کرم نہیں کہ جیسے ہی تحفظ ختم نبوت کی جنگ کے نقارے پہ چوٹ پڑتی ہے، سب مفادات ، تمام اختلافات اور تقسیم پیچھے رہ جاتی ہے اور ہم بحیثیت قوم اپنے آقاﷺ کے در کی چوکیداری پر مستعد ہوجاتے ہیں ۔
صرف میرے رب کا کرم ہے ، عنائت ہے اس کی ،1953ء کی تحریک دیکھ لیجئے ، کتنے شہید ہوئے،کتنے جنازےاٹھے، کتنی لاشیں گریں ،مکاتب فکر کو لڑانے کی کتنی سازشیں ہوئیں ، لیکن یہ اس رب کی مہربانی تھی کہ ہم ثابت قدم رہے ، کھڑے رہے ، میدان میں ڈٹے رہے ۔ پھر 1974ء آیا ، کفر و دجل پر کاری ضرب اور حتمی فیصلے کا وقت، سانپوں کے سرکچل دینے کاوقت ۔کسی کے حیطہ خیال میں بھی نہ ہوگا کہ رب یہ اتنی بڑی سعادت مغرب کے تعلیم یافتہ ایک لبرل سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کے نام لکھ دے گا ۔ ذرا اس دور کی اسمبلی کا تو جائزہ لیں جہاں تمام مکاتب کے علما باہم شیرو شکر قادیانیت کے کفر کو دندان شکن شکست کے لئے ایک دوسرے کے دست وبازو بنے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ، ان کے شانہ بشانہ خان عبدالولی جیسے لبرل بھی پورے قد سے کھڑے تھے کہ سیاست میں مذہب کی مخالفت کے موقف کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان اپنے آقا ﷺ سے وفا ہی نہ کرے ، اور اس قبیلہ سخت جان کی وکالت پاکستانی قوم کی نمائندگی کون کر رہا تھا ؟ قادیانیوں سے بحث اور ان کے کفر کو آشکار کرنے کے لئے مقدمہ کون لڑ رہا تھا؟ مذہب بے زار لبرل یحییٰ بختیار ۔ اللہ ان سب کو غریق رحمت کرے ، یقینا روز قیامت آقا ﷺ اپنے ان سپاہیوں کی سفارش اور شفاعت فرمائیں گے ۔ انشا اللہ ۔ولی خان ،ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ بختیار کون تھے ؟ لبرل تھے،سیکولر تھے لیکن ایک بات ہے کہ منافق نہیں تھے ، اسی لئے جب آقا ﷺ کے مقام ومرتبہ کی دفاع کی جنگ چھڑی تو صف اول میں دکھائی دئیے اور کامران ٹھہرے ۔
میرا وجدان کہتا ہے ، اک خیال ہے ، محض اک سوچ بلکہ رب کی رحمت سے امید کہ اللہ رب العزت کا ہم پرکرم ہے ، رحمت ہےکہ جب ہم اپنے کرتوتوں کےسبب مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے لگتے ہیں ، یا ناکامیوں نا امیدیوں کی دلدل میں دھنس کر اپنی قوت اپنا ایمان کھونے کے بھی قریب ہوجاتے ہیں تو وہ اس طرح کے کسی فتنے کی سرکوبی ہمارے سپرد کرکے ، ہمیں سرفراز کرتا ہے، نوازتا ہے ، کامیابی کا انعام دیتا ہے ، تاکہ زندگی کی دوڑ میں ہم پھرسےمستعد ہو سکیں ، آگے بڑھ سکیں ، مایوسی کی خول سے نکل سکیں۔سقوط ڈھاکہ کے زخموں نے ہمیں نڈھال کر رکھا تھا ، رب نے قادیانیت کے خلاف پارلیمنٹ میں فتح عظیم عطا کرکے ہمارے مورال کو وہ بلندی عطا کی کہ درماندہ وپسماندہ پاکستان ایٹمی قوت کر ابھرا ، یہ اسی فیصلے کی برکت تھی ۔ سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سپریم کورٹ سے پھوٹنے والا حالیہ بحران بھی ہمارا امتحان تھا، نوازنے اور کامیابی کی راہ دکھانے کا اک بہانہ ۔ 74میں ہمارا بحران دفاعی تھا ، ہم نے آقا ﷺ سے وفا کی تو انعام میں قوت عطا ہوگئی ۔ آج ہمارا بحران معیشت اور استحکام کا ہے ، پوری قوم نے حکومت ، اپوزیشن ، سپریم کورٹ ، سیاسی دینی جماعتوں سب نے یک جان ہو کر آقا ﷺ کے دشمنوں کی سازش ناکام بنا دی ، میرا رب جس نے ہمیں کفر کی باریک سازش کے خلاف یہ کامیابی عطا کی، یقینا اب انعام بھی دیگا،معاشی اور استحکام کے بحران کے خاتمے کا انعام ۔
آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور کہیں منگتوں کا بھلا ہو