پیر‬‮   20   اکتوبر‬‮   2025
 
 

پاک افغان سرحد پر امن کا خواب

       
مناظر: 754 | 20 Oct 2025  

اقبالؒ نےمشرق کا جنیوا ہونے کا خواب تہران کے لئے دیکھا تھا ، لیکن پورا دوحہ کی صورت ہوا،جو امن مذاکرات کے مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔ کس نے سوچا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان اور وہ بھی افغان طالبان کے درمیان بات چیت کے لئے کسی دوسرے کی ضرورت پڑے گی ، لیکن محسن بھوپالی کے الفاظ میں’’ نیرنگی سیاست دوراں‘‘ کہیں یا مفادات کا کھیل ،لیکن شائد اقبالؒ نے ترکوں کے بارے میں جو’’ناداں‘‘ کا استعارہ استعمال کیا تھا ، وہ زیادہ موزوں ہے، حسب حال تو خیرشیرازی سےمنسوب ایک قطعہ بھی ہے، جس میں افغانوں کی خصلت کا بیان ہے،لیکن رہنے دیجئے،اپنا ہی دل دکھے گا، دل کی بات آہی گئی تو پھر اقبالؒ سے بہتر ترجمان کہاں ملے گا ، ویسے تو ’’غرہ شوال یا ہلال عید‘‘ کے کامل حسب حال ہے،مگر یہ شعرتو گویاآج کےلئے ہی کہا گیا ہو
جس کو ہم نے آشنا لُطفِ تکلّم سے کِیا
اُس حریف بے زباں کی گرم گُفتاری بھی دیکھ
لڑکپن کا رومانس ٹوٹنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن صورتحال متقاضی ہے کہ دوحہ معاہدہ پر’’ اطمینان ‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے، پس منظر وپیش منظر اور مستقبل کے خدشات و خطرات پر بھی نگاہ ڈال لی جائے ،تاکہ کسی نئے قلبی سانحہ سے بچا جا سکے ۔ طالبان یعنی قندھاری طالبان اور دہلی سرکار کے درمیان نئے قائم ہوتے رشتے کے تناظر میں دیکھیں تو یہی معاہدہ اپنی موجودہ حالت میں ’’عارضی سکون‘‘ کی کوشش سے زیادہ نہیں البتہ استنبول میں چار روز بعد متوقع اجلاس اگر ’’ہوا‘‘ ، اور اس میں نگرانی کا کوئی قابل عمل میکا نزم طے پانا ممکن ہو گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ’’ سکون کے لمحات‘‘ کچھ طویل ہو سکیں ، ورنہ ہم نےافغان دوستوں کی جانب سے عہد کی’’ پاسداری ‘‘ یوں بھی دیکھ رکھی ہے کہ بیت اللہ کے سائے میں دستخط ہوئے،وفود ابھی واپس نہ پہنچے تھے کہ معاہدہ کے پر خچے اڑاتے ہوئے خانہ جنگی کے نئے خونی باب کا آغاز کردیا گیا۔اس لئے عہد ، معاہدہ ، سمجھوتہ بے معنی ہے اگر ایک طاقتور بندوبست نگران نہ ہواتو ۔ گوکہ جنگ بندی ایک بڑی پیش رفت ہے، کئی اختلافی نکات اب بھی درپیش ہیں ، معاہدہ کے فوراً بعد اعلامیہ میں لکھے لفظ’’ سرحد‘‘ کو تسلیم کرنے سے ملا یعقوب کا انحراف اور وضاحتیں ،یہ بتانے کو کافی ہیں کہ وہ کس حد تک خودمختار ہیں اور کتنا دبائو برداشت کر سکتے ہیں ۔ترکی اور قطر اس معاہدے کے ثالث ہیں، یہی دونوں ملک 2021 میں مشترکہ طور پر کابل، مزارشریف، قندھار اور ہرات ائیررپورٹ کے آپریشن کا کنٹریکٹ حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن ناکام رہے، کامیابی اماراتی کمپنی کو مل گئی، اب یہی دونوں ملک دوحہ جنگ بندی کے ضامن ہیں۔سچ صرف یہ ہے کہ معاہدے کی ضامن صرف آپ کی قوت بازو ہے اور باقی سب کہانیاں۔ سوال یہ ہے کہ یہ معاہدہ قندھاریوں کے پچھلے معاہدوں سے کتنا مختلف ہے ، ابھی چار ماہ قبل جون میں بھی تو تعاون کا ایسا ہہی وعدہ سامنے آیا تھا ،جو صرف ایک ماہ ہی چل سکا ، اس سے پہلے بھی چار سال میں کوئی دو درجن سے زیادہ وعدے ہوئے، ایک ماہ سے زیا دہ عمر کسی کو نصیب نہ ہوئی ، یعنی بقول ریاض خیر آبادی
جام مے توبہ شکن توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
بہرحال مختلف یہ ہے کہ اول یہ پہلا تحریری معاہدہ ہے ، اور پھر یہ کہ قندھاری وفد نے پہلی بار پاکستان کا نام لےکر تسلیم کیا ہے کہ ’’اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ اس سے قبل عمومی بیان دیا جاتا تھا کہ ’’اپنی سرزمین کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ ایک اور اہم بات قطری انٹیلی جنس چیف کی میزبانی کے ساتھ ساتھ ترک انٹیلی جنس کے سربراہ ابراہیم کالن کی موجودگی تھی۔ 14 گھنٹے طویل مذاکرات میں ابراہیم کالن نے مسلسل ترک صدر طیب اردوان کو اپ ڈیٹ رکھا۔ مذاکرات کا اگلا دور استنبول میں ہوگاجہاں مانیٹرنگ مکینزم کو حتمی شکل دی جائے گی۔خیال یہ ہے کہ استنبول مذاکرات میں ترکی کا انٹیلی جنس ادارہ (MIT) فعال کردار ادا کرے گا، جو مشترکہ مانیٹرنگ کمیٹی (JVC) کے قیام کی نگرانی بھی کرے گا۔ معاہدہ میں پاکستان کی جانب سے زور دیا گیا ہے کہ افغانستان سرحد پار دہشت گردی، خصوصاً ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔قندھاریوں نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کی تردید کی ہے، تاہم انٹیلی جنس شیئرنگ اور مشترکہ نگرانی پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان کے لئے اطمینان کے البتہ کئی پہلو اس معاہدہ سے ہٹ کر بھی ہیں، اگرفریق ثانی نے ایک بار پھر دہلی کی ڈگڈگی پر معاہدہ سے روگردانی کی تو نا صرف قطر اور ترکیہ کی حمائت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا بلکہ پاکستان کے نرم رویہ کی وجہ سےاب تک حاصل علاقائی پذیرائی بھی باقی نہیں رہے گی ۔ جس کااعلان ماسکو فارمیٹ میں کردیا گیا تھا، جسے سمجھنے میں شائد قندھار والے ناکام رہے،یا انہیں دہلی سے ہوئے نئے نئے عشق پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ ہے۔ ماسکو فارمیٹ کے افتتاحی اجلاس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نےاپنے خطاب میں واضح طور پر کہا تھاکہ”افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔‘‘افغانستان میں سرگرم مسلح تنظیموں کو علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہی قرار نہیں دیا گیا ، بلکہ ٹی ٹی پی ، بی ایل اے ، داعش ، ای ٹی آئی ایم اور جیش العدل کا نام لے کر مطالبہ کیا گیا کہ طالبان ان کے خلاف مؤثر کارروائی کریں ۔انسدادِ دہشت گردی کے لیے مشترکہ علاقائی حکمت عملی کی ضرورت پربھی اتفاق کیاگیاتھا۔مستقبل کی دھندلی سے تصویر کچھ ہوں ہو سکتی ہے کہ استنبول مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہوئے ،افغان سرزمین بدستور دہشت گردوں کی جنت بنی رہی تو پھر آخری آپشن’’انسدادِ دہشت گردی کے لیے مشترکہ علاقائی حکمت عملی‘‘ہی رہ جائے گا ۔ فیصلہ ہمارے ان دوستوں کے ہاتھ میں ہےکہ سب کے ساتھ چلنا ہے،یا دلی کے عیاروں کے اشارے پراپنے پائوں پہ کلہاڑی مارنی ہے ۔ الجزیرہ پہلے ہی رپورٹ کرچکا ہے کہ’’طالبان نے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں لچک نہ دکھائی تو افغانستان میں “رجیم چینج” یا اقتدار کی منتقلی کا امکان آئندہ سال کے دوران بڑھ سکتا ہے۔‘‘یہ صورتحال پاکستان کے لیے بھی ایک نیا چیلنج ہوگی ،ایک طرف طالبان کے خلاف سخت مؤقف ناگزیر ہے، تودوسری جانب کسی نئی حکومت یا مزاحمتی اتحاد کی صورت اپنی پالیسی تیزی سے بدلنی پڑے گی۔ویسے بھی افغانستان کے شمال سے لیکر مغرب تک بدلتے موسموں کے آثار ہویدا ہیں ، عشاق کی نگاہیں بہت کچھ رہی ہیں ۔ بقول اقبال ؒ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0