پاکستان اور افغانستان نے جمعے کی صبح اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں سرحدی جھڑپوں اور تعلقات میں تیزی سے بگاڑ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کو برقرار رکھا جائے گا۔
پاکستانی اور افغان طالبان وفود کے درمیان بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز ہفتے کو استنبول میں ہوا تھا، تاہم کابل سے مسلسل دہشت گرد حملوں پر اسلام آباد کی دیرینہ تشویش ایک بڑا اختلافی نکتہ بنی رہی، جس کے باعث مذاکرات میں تعطل پیدا ہوگیا، تاہم بدھ کو پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے ناکام ہونے اور وفد کی واپسی کے اعلان کے بعد ترکیہ اور قطر نے ایک بار پھر مداخلت کر کے مذاکراتی عمل کو بحال کیا اور بالآخر پیش رفت ممکن ہوئی۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ کی جانب سے جمعے کی صبح جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ جنگ بندی کے نفاذ کے مزید طریقہ کار پر تفصیلی غور و خوض 6 نومبر کو استنبول میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
اعلامیے میں اگرچہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ’اعلیٰ سطح کے اجلاس‘ میں کن رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے، تاہم امکان ہے کہ اس سے مراد دونوں ممالک کے وزرائے دفاع ہیں جنہوں نے دوحہ میں مذاکرات کے پہلے دور کی قیادت کی تھی اور اب وہ استنبول میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور خلاف ورزی کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کرنے کے لیے ایک ’مانیٹرنگ اور توثیقی نظام‘ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ امن کے تسلسل کو یقینی بنانے اور خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا نافذ کرنے کے لیے نگرانی اور توثیق کا ایک نظام قائم کیا جائے گا‘۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ثالث کے طور پر ترکیہ اور قطر دونوں فریقین کی ’فعال شمولیت‘ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں ممالک ’پائیدار امن و استحکام‘ کے لیے فریقین کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
ترکیہ اور قطر کے پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، جب کہ قطر نے افغان طالبان اور نیٹو افواج کے درمیان مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح امارت اسلامی دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے، اسی طرح وہ پاکستان کے ساتھ بھی مثبت تعلقات کی خواہاں ہے جو باہمی احترام، داخلی امور میں عدم مداخلت اور کسی بھی جانب کے لیے خطرہ نہ بننے کے اصول پر مبنی ہوں‘۔
یہ مشترکہ اعلامیہ اس وقت سامنے آیا جب وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’استنبول مذاکرات میں اب ایک روشنی کی کرن دکھائی دے رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’حتمی معاہدے کے لیے مختلف مسودات کا تبادلہ ہو رہا ہے، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امید کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے، ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی ہے، امید ہے کہ اس سے کوئی شکل ضرور نکلے گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’قطر اور ترکیہ ہمارے لیے نہایت قابلِ احترام اور خیر خواہ ممالک ہیں، ترکیہ نے پاکستان-بھارت تنازع میں کھل کر ہمارا ساتھ دیا تھا، اس لیے ہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں‘۔

 
	 
  
  
  
 