مرزاناصرمغل
دنیا انسانی حقوق پر سب سے زیادہ حساس رویہ رکھتی ہے۔ ہرتہذیب انسانوں کے لیے ہمہ قسم کے حقوق اورآزادیاں مہیاکرنے کی حامی ہے۔ تاہم اس وقت انسانی حقوق اور ان کے تحفظ پر بھارت کی صورت میں بہت بڑاچیلنج اقوام عالم کے سامنے ہے۔ بھارت نے کشمیر سمیت ہرغیر ہندو طبقہ ء زندگی اور اقلیتوں پر ظلم وستم، زیادتیوں اور استحصال کا بازارگرم کررکھاہے۔ یہ سلسلہ ہرگذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہاہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مطابق بھارتی ریاستوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، گجرات اور ہماچل پردیش میں مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا نہ صرف استحصال کیا جاتا ہے بلکہ مختلف مواقع پر انسانیت سوز تشدد کے ذریعے انسانی حقوق کے ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ مذہبی آزادی کے موضوع پر پیش کی گئی اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹ میں بھی واشگاف الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لئے زمین تنگ ہے اور مذہبی اقلیتوں پر تشدد روا رکھا جاتا ہے۔بے گناہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا ناروا سلوک اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا۔ جمہوری حقوق کی پیپلز یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں موجود کشمیری مسلمان ظلم و جبر اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہاں کی مقامی پولیس اوچھے ہتھکنڈوں سے انہیں ہراساں کرتی ہے۔ بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کر کے حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اور رہائی کے عوض بھاری رقوم کا بطور رشوت تقاضا کیا جاتا ہے۔ بھارتی پولیس نے افضل گرو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا اور بھارت کے شدت پسند حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسے پھانسی دے دی جو سراسر عدالتی قوانین اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھی۔9/11کے بعد بھارت نے کشمیریوں پر کئے جانے والے مظالم میں مزید اضافہ کر دیا اور اُن کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کے لئے بھونڈی کوششیں کیں۔ 9/11کی آڑ میں بھارت کے ہاتھ کشمیری مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کا ایک سنہری موقع مل گیا اور کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے کے لئے جھوٹا اور منفی پروپیگنڈا کیا جانے لگا تاکہ اقوام عالم کی آنکھوں میں د ھول جھونک کر ان کے دلوں میں کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والی ہمدردی کو ختم کیا جا سکے لیکن آج دنیا جان چکی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے حصول کی جدوجہد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ کشمیری عوام تو ایک عرصے سے اپنے حقوق کی آزادی کے لئے بھارت کی انتہاپسندی، جارحیت اور استعماریت کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔بھارتی مظالم کی فہرست کچھ یوں ہے کہ جنوری 1989تا دسمبر 2016 مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد کو شہید کیا گیا۔ 7073افراد کو بھارتی فوج اور پولیس نے حبس بے جا میں رکھ کر جھوٹی تفتیش کرتے ہوئے شہید کر دیا۔ 137,469افراد کو جھوٹے بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کر کے ہراساں کیا گیا۔ 107,043افراد کو بے گھر کیا گیا۔ 107591بچے بھارتی مظالم کی وجہ سے یتیم ہوئے۔ 22826خواتین کے سہاگ اُجڑے۔ 10,717 خواتین پر جنسی تشدد کیا گیا اور انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر کئے جانے والے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی افواج سے انسانیت کی تذلیل کے لئےPSA، TADAاورAFSPجیسے کالے قوانین بنا رکھے ہیں۔ 8جنوری 2016کو بھارتی فوج نے ایک ہونہار کشمیری نوجوان برہان سلیم وانی کو شہید کر دیا تھاجو کہ سوشل میڈیا پر بھارتی جارحیت کے خلاف ایک بھرپور اور موثر مہم چلا رہا تھا جس کے ذریعے بہت سے مقامی جوان تحریک آزادی میں نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ شامل ہوئے۔ وانی کی شہادت نے تحریک میں ایک نئی سوچ پھونک دی۔ اب تحریک شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی پھیل گئی۔ اس سے پہلے 2008اور 2010میں اٹھنے والی تحریکیں صرف شہروں تک محدود تھیں مگر موجودہ لہر نہ صرف پوری شدت سے جاری ہے بلکہ پوری وادی میں پھیلتی جا رہی ہے۔بھارت انسانیت سوز جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے کشمیری مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور ایسے مظالم توڑ رہا ہے کہ جن کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس کی ایک مثال پیلٹ گن کا استعمال ہے جو 2010 کے بعد 9جولائی 2016 کو دوبارہ وسیع پیمانے پر استعمال ہونا شروع ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق 2ملین سے زائد پیلٹز(Pellets)استعمال ہوئی ہیں۔ جن سے 7000 سے زائد کشمیری بری طرح زخمی ہوئے اور بینائی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان میں مختلف کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں۔ 5اگست 2019 کو ہندوتوا کی پیروکار نریندر مودی سرکار کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیے جانے کے بعد وہاں جس طرح کے مظالم ڈھائے گئے اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شرمندہ ہیں۔ کیونکہ ان کیلئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ مقبوضہ وادی کے اصل حقائق دنیا کے سامنے لاسکیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران بھارتی فوج 400سے زیادہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کر چکی ہے۔ پانچ کشمیری صحافیوں کو بھارتی فوج و بارڈر سیکورٹی فورس کی بربریت اجاگر کرنے پر ”نامعلوم”افراد کے ذریعے قتل کرادیا گیا۔ خاتون صحافی مسرت زہرہ کو بھارتی فوج کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر الجزیرہ ٹی وی باقاعدہ دستاویز فلم عکس بند کر کے دنیا کے سامنے لاچکا ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حقائق کیمرہ کے ذریعے عکس بند کرنے اور سچ لکھنے والوں کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔15جون 2018کو سری نگر میں بھارتی فوج نے براہ راست فائرنگ کر کے مقبوضہ کشمیر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہRising Kashmir کے ایڈیٹر شجاعت بخاری اور اس کے دو سیکورٹی گارڈ ز کو قتل کردیا۔ شجاعت بخاری کا قصور یہ تھا کہ ایک کشمیری خاندان کا گھر اور اس سے ملحقہ کھیت ہتھیانے کیلئے ناجائز قابض بھارتی فوج نے جب اْس گھر میں دہشت گردوں کی آمدو رفت کا شوشہ چھوڑ کر علاقے کی ناکہ بندی کی توشجاعت بخاری نے مذکورہ گھر اور ملحقہ کھیت کی تصاویر اپنے اخبار میں شائع کر کے ساتھ ہی حقائق لکھ دیئے کہ بھارت سرکار مذکورہ گھر اور ملحقہ زمین پرقبضہ کیلئے اس گھر میں دہشت گردوں کی موجودگی کا ڈرامہ رچا کر گھر کو بارود سے اْڑانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ خبر ناجائز بھارتی فوج سے ہضم نہ ہوئی اور شجاعت بخاری کو دن دیہاڑے شہید کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی جانب سے شائع رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت کی جانب سے اقلیتوں اور ہندوئوں کی چھوٹی ذاتوں کے حقوق نہ صرف سلب کیے گئے بلکہ انسانیت سوز سلوک بھی کیا گیا۔ مسلمانوں پر تو ہمیشہ سے ہی بھارت کی جانب سے مظالم ڈھائے گئے مگر اب اس لسٹ میں سکھ،دلت اور عیسائی بھی شامل ہوگئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت پچھہتر سال سے نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ہر روز پائوں تلے روندتا چلا آرہا ہے۔ بچوں اور عورتوں پر پیلٹ گنوں کے استعمال سے ہزاروں خواتین اور بچوں کو بینائی سے محروم یا متاثر کیا جا چکا ہے۔بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں کو گاڑی کے ساتھ باندھ کر گھسیٹنا اور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا بھی عام ہے۔ سیٹیزن امینڈمینٹ ایکٹ کے تحت بھارت میں موجود اقلیتوں اور ہجرت کرنے والے شہریوں بشمول ہندووں کے حقوق بھی سلب کئے گئے ہیں۔ کشمیری اس ایکٹ کے بعد سے انتہائی تشویشناک حالات میں زندگی گذار رہے ہیں۔بھارتی پولیس اور فوج اس ایکٹ کو خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں بھارتی پولیس اور فوج کو جعلی پولیس مقابلوں میں مظلوم اور معصوم لوگوں کو مارنے کا مرتکب پایا گیا ہے۔ دلتوں پر بھی مختلف اقسام کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور ان کو شدید مظالم کا شکار بنایا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین کو حجاب اوربرقع اوڑھنے سے روکاجارہاہے۔ اس ضمن میں مسلم طالبات ایک طویل مدت سے بھارتی حکام کی چیرہ دستیوں کا سامناکرتی آرہی ہیں۔یہ تمام حالات دنیاکے لیے چیلنج ہیں۔حال ہی میں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے برطانوی پارلیمان میں ایک خصوصی مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے لارڈ قربان حسین نے برطانوی حکومت سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان مستقبل میں ہونے والے کسی آزاد تجارتی معاہدے کو انسانی حقوق سے منسلک کرے گی کہ نہیں ”اگر نہیں تو کیوں نہیں؟، بہت سے برطانوی قانون ساز اس بحث میں شامل ہوئے جہاں بھارت کے غیر انسانی اور جنگی جرائم سے متعلق سوالات زیر بحث تھے۔ بین الاقوامی برادری کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے، ہم عالمی برادری، اقوام متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انتہا پسند ‘ہندوتوا’ حکومت سے بھارت میں اسلامی ورثے کے مقامات کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ بھارتی حکومت کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے انتہا پسند ‘ہندوتوا’ دیگر مساجد کو بھی مندر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس میں وارانسی کی گیانواپی مسجد بھی شامل ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں نے بابری مسجد شہید کرنے کے 30 سال بعد اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے تاریخی تاج محل پر اپنی میلی نظریں جمانا شروع کر دیا ہے، جس سے بھارت میں اسلامی ورثہ خطرات کا شکار ہوگیا ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ وہ جھوٹے دعوے کر رہے ہیں کہ تاج محل کی ابتدا ہندو دور میں ہوئی، نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کی طرف سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن میں تاج محل کی ‘حقیقی تاریخ کا مطالعہ’ کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کا مقصد یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی جگہ تاج محل کو ہندوئوں کا ورثہ قرار دینا ہے۔ ایودھیا میں بی جے پی کے میڈیا سربراہ رجنیش سنگھ نے اپنی درخواست میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ‘سائنسی ثبوت’ نہیں کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کیا تھا۔مزید کہا گیا کہ باوجود اس کے کہ بھارتی عدالت نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا تھا تاہم بی جے پی کے رہنما کئی برسوں سے غیر تاریخی دعوے دہراتے اور بڑھاتے رہے ہیں کہ تاج محل درحقیقت ایک ہندو مندر ہے، جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا، ہندوتوا کے ساتھ آر ایس ایس پورے بھارت میں مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ تاریخی یادگاروں کے خلاف بیانیہ پیش کر رہی ہے۔ بی جے پی کے دور حکومت میں آر ایس ایس کے دائیں بازو کے ہندو شہروں کے نام تبدیل کرنے اور بھارت بھر میں 36 ہزار سے زیادہ مساجد کو مندر کی جگہ پر تعمیر کرنے کے جھوٹے دعووں پر مشتمل مہم چلا رہے ہیں ان شہروں میں علی گڑھ، دیوبند، فرخ آباد، بدایوں، سلطان پور، فیروز آباد اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یوپی حکومت پہلے ہی فیض آباد کا نام ایودھیا اور الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر چکی ہے، مودی کے قریبی معاون اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلم پس منظر اضلاع اور علاقوں کے نام بدل کر مسلم شناخت کو مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، 2017 میں ونئے کٹیار، جو اس وقت بی جے پی کے راجیہ سبھا کے رکن تھے، نے دعویٰ کیا کہ یہ یادگار درحقیقت ایک شیو مندر ہے جس کا نام ‘تیجو مہالیہ’ ہے، جسے ”اصل میں” ایک ہندو حکمران نے بنایا تھا۔ 1669 میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے دور میں متھرا میں تعمیر کی گئی شاہی عیدگاہ مسجد کے بارے میں بھی انتہا پسند ہندو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ مسجد کیشو دیو مندر پر بنائی گئی تھی۔ علاوہ ازیں دائیں بازو کے ہندو گروپ جامع مسجد شمسی کے متعلق بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں، اسے نیل کانٹھ مہادیو کے مندر کو گرا کر تعمیر گیا، بدقسمتی سے، عالمی برادری نے بھارت میں بی جے پی کی زیر قیادت ہندوتوا کی طرف سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، بھارت میں مسلمانوں کے تاریخی ورثہ اور املاک کی حفاظت کے لئے عالمی سطح پر ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔بھارت میں مذہبی آزادیاں بھی سلب کی جارہی ہیں۔ تاہم امریکی حکومت نے حالیہ رپورٹ میں اس حوالے سے جاری فہرست میں بھارت کا نام شامل نہ کرکے کھلی جانب داری اور تعصب کا مظاہرہ کیا۔دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے امریکی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو فہرست میں شامل نہ کرنا امتیازی سلوک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی کمیشن کی سفارش کے باوجود بھارت کو فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ممتازبلوچ نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو بھارت کی طرف سے ویزے جاری نہ کرنے پر بھی مایوسی اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی وحشت جاری ہے مگر بھارت، ڈریکونین اقدامات کے ذریعے کشمیریوں کو دبا نہیں سکتا۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم قابل مذمت ہیں اور بھارت عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے، لہٰذا عالمی برادری بھارتی مظالم کا نوٹس لے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باعث، دنیامیں انسانیت کا سب سے بڑاعقوبت خانہ بن چکاہے۔