عمرفاروق /آگہی
دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز 1948 میں ‘یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس کے عنوان سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایما پر ہوا تھا۔انسانی حقوق کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھنے والی اس دستاویز کا دنیا کی 500 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس اعلامیے میں دنیا کے ہر ایک انسان کو بلا امتیاز تمام بنیادی اور ناگزیر حقوق ملنے کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے، خواہ اس کا تعلق کسی نسل، رنگ، مذہب، جنس، زبان، سیاسی یا دیگر وابستگی، قومی یا معاشرتی حیثیت اور املاک سے ہو۔انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے بات کی جائے تومقبوضہ کشمیرکے عوام اس میں سرفہرست ہیں جہاں گزشتہ 75سالوں میں بھارتی حکومت نے انسانی حقوق صرف پامال ہی نہیں کیے بلکہ نت نئے مظالم کی وہ تاریخ رقم کی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی مگراقوام متحدہ کاانسانی حقوق کایہ عالمی دن کشمیریوں کے لیے ان مظالم سے نجات کاپیغام نہیں لاسکا ۔بلکہ جموںوکشمیر میں مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے 5اگست2019کو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے غیر قانونی اقدام کے بعد مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے ماورائے قتل ،جبری گرفتاریوں، املاک کی تباہی اور انسانی حقو ق کی سنگین پامالیوںمیں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔بھارتی حکومت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کو تین برس سے زائدعرصہ ہوچکاہے اگران تین برسوں کے بھارتی مظالم کاجائزہ لیاجائے تواقوام متحدہ کوبیدارکرنے کے لیے کافی ہیں مگراقوام متحدہ اورانسانی حقوق کے دیگرادارے خاموشی کی چادرتان کرسوئے ہوئے ہیں ،ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں بھارتی فوجیوں نے 13خواتین سمیت 662کشمیریوںکو شہید کیا۔جس میںکل جماعتی حریت کے سینئر رہنما محمد اشرف صحرائی سمیت درجنوں کشمیری رہنماء شامل ہیں ۔ اس عرصے کے دوران بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے پر امن مظاہرین پر فائرنگ ، پیلٹ گنزاور آنسو گیس کے وحشیانہ استعمال کی وجہ سے 2ہزار278کشمیری شدید زخمی ہو ئے۔ 05اگست 2019کے بعد سے شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد 2011، 2012، 2013، 2014اور2015 میں ہونے والی شہادتوں سے کئی زیادہ ہے۔مودی کی فسطائی حکومت نے کشمیریوںکودبانے کے لیے پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالاقانون اورنوجوانوں کی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق یو اے پی ے لاگو کیا ۔جس کی آڑمیںپورے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی پر تشدد کارروائیوں کے دوران جعلی مقابلوں اور حراست کے دوران پے درپے وحشیانہ تشدد کے ذریعے نوجوانوں کوشہید کیا جارہاہے ۔ اگست2019کے بعد سے ان شہادتوں کے نتیجے میں 38خواتین بیوہ جبکہ 91بچے یتیم ہو ئے ہیں ۔ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 1ہزار93مکانات اور دیگر عمارتیں تباہ کیں، 115خواتین کی عصمت درری کی اور پورے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران معمر خواتین اور چھ کے قریب لڑکیوں سمیت17ہزار993کشمیریوں کو گرفتار کیا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 5اگست 2019کوبھارتی آئین کی دفعہ 370اور35Aکی منسوخی کے بعد سے خاص طورپر کشمیریوں کی زندگی جہنم بن چکی ہے ۔ان مذموم اقدمات کا اصل مقصد مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے کشمیریوں سے انکی شناخت چھیننا ہے ۔ اس وقت پورے مقبوضہ جموںوکشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ حریت رہنمائوں ، کارکنوں ، مذہبی اور سیاسی رہنمائوں ، تاجروں ، سول سوسائٹی کے ارکان سمیت ہزاروں کشمیری اس وقت مقبوضہ علاقے اور بھارت کی مختلف جیلوں میں نظر بند ہیں جنہیں 5اگست 2019کے بعد گرفتار کیاگیا تھا ۔یہ توتین سالہ مظالم کی ہلکی سی جھلک ہے اگر1990سے اب تک بھارتی مظالم کاجائزہ لیاجائے تومجموعی طورپر96 ہزارکشمیری شہید ,22 ہزار کشمیری زخمی 11 ہزار خواتین کی عصمت دری,ایک لاکحھ بچے یتیم,ایک لاکھ سے زیادہ مکانات اور انفراسٹرکچر تباہ 8 ہزاراجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں,2014 سے کشمیریوں کے خلاف پیلٹ گنز کا استعمال کرکے120کشمیری شہید، ,15ہزار شدید زخمی ہوگے, 2014 سے حراست میں تشدد سے اب تک 30 ہزارسے زائد افراد کو بدترین قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ تشدد کی تکنیکوں میں واٹر بورڈنگ، جبری فاقہ کشی، نیند کی کمی اور لاشوں کو جلانا شامل ہے۔ مقبوضہ علاقے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے نتائج کو تبدیل کرنے کے مقصد سے کشمیریوں کو ان کے آبائی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں 3.5 ملین سے زائد جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔بھارت کی مودی حکومت کشمیرکے حوالے سے “اسرائیلی ماڈل” پرعمل پیراہے، کشمیریوں کوبے گھرکرکے وہاں اپناغیرقانونی تسلط مضبوط کرنے کے لئے کالونیاںبنارہاہے ۔ 1991سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کے تحت 9 لاکھ ہندوستانی فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ اس خطے پر تسلط جمائے رکھے۔آج، فوجی اور شہری تناسب 1:8 ہے جو مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے زیادہ عسکری خطوں میں سے ایک بناتا ہے،۔ آج کشمیر ایک خونی سوالیہ نشان ہے جو قلم کی نوک سے ٹپک رہا ہے۔ بلاشبہ یہ کرہ ارض پر ہمارے وقت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔جہاں بھارتی سامراج کے ظلم نے آگ بھڑکا رکھی وہیں کشمیری عوام کا جذبہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ہمت اور بہادری کے نشان بنے ہوئے ہیں ، آج کشمیر کے ہر گھرسے آزادی کی آوازبلندہورہی ہے ۔ کشمیری سوشل میڈیاکے اس دورمیں اپنی مددآپ کے تحت اپنی آوازعالمی برداری تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔مقبوضہ کشمیرمیں آزادی صحافت کو مسلسل خطرہ لاحق ہے اور صحافیوں کو نظربند اور حراساں کیاجارہاہے۔مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں متعارف کرائی گئی نئی میڈیا پالیسی کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں میڈیا پر مزید شدید قدغنیںعائد کر دی گئی ہیں۔انسانی حقوق کی پامالی کا عالم یہ ہے کہ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں متعددمرتبہ جبکہ جموں خطہ کے کشتواڑ اور بدھرواہ علاقوں میں کئی بار نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے بھارت نے ہر حربہ آزمایا لیکن کشمیری عوام کی حریت کا جذبہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ آج اگر اس جنت کی وادی کو بھارتی سامراج نے روند ڈالا۔ یہاں کے لالہ زار اپنی سرخیاں کھو رہے ہیں اور شہداء کے خون سے لال ہو رہے ہیں۔ ان گنت مظلوم لوگوں کی آہیں اور جو ظلم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں وہ عرش الہی کا طواف کر رہی ہیں۔ اگرچہ یہ سارا منظر دل دہلا دینے والا ہے ، لیکن اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ آزادی کے طلوع ہونے کا پہلا پیش خیمہ ہے۔۔ مسلم ممالک بشمول یورپ اور امریکہ نے کم از کم مودی حکومت کی فاشسٹ پالیسیوں کے خلاف بھارت کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔مگریہ کافی نہیں اقوام متحدہ کواپنی قراردادوں اورانسانی حقوق کی تنظیموں کواس حوالے سے اپناکرداراداکرناہوگا ورنہ انسانی حقوق کے نام پردن منانے سے مظلوموں کوانصاف نہیں مل سکتا اس حوالے سے عملی کردارااداکرناہوگا۔